کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 32
جیلانی شیئا للہ کہتے ہیں ۔ اس کلام میں خدا کو سفارشی اور جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کودینے والا بنایا ہے اور واقعہ اس کے برعکس ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں سے حاجت چاہنا خدا کو کمزور سمجھنا ہے اور مخلوق کو قوی اور دانا خیال کرنا ہے۔ معاذ اللہ! (بلاغ المبین: صفحہ ۶۱)
اس حدیث سے متعلق ایک اور واقعہ بھی اس رسالہ میں مذکور ہے، جو یوں ہے کہ
’’ایک صاحب کسی مقصد کے لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملنا چاہتے تھے لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ انہوں نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے تذکرہ کیا۔ انہوں نے فرمایا: وضو کرکے مسجد میں دو رکعت نماز پڑھو اور اس کے بعد یہ دعا مانگو: ’’اللَّهم إنی اسئلک … الخ‘‘ انہوں نے یہ عمل کیا، نہ صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی اور انہوں نے ان کی حاجت پوری کردی بلکہ فرمایا کہ جب کوئی کام ہو تو میرے پاس آجانا۔ یہ صاحب واپسی پر حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملے اور شکریہ ادا کیا کہ آپ کی سفارش سے میرا کام ہوگیا۔ انہوں نے فرمایا: میں نے سفارش بالکل نہیں کی، میں نے تو تمہیں وہ عمل بتایا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا صحابی کو تعلیم فرمایا تھا۔ (ملخصاً از المعجم للطبرانی : صفحہ ۱۰۳)
قادری صاحب نے اس روایت میں بھی علمی خیانت کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ انہوں نے یہ روایت امام طبرانی کی کتاب ’الدعاء‘ کے حوالے سے ذکر کی ہے لیکن خود امام طبرانی کے ان الفاظ کو…’’وھم عون فی الحدیث وھما فاحشا‘‘ (عون بن عمارہ راوی نے اس حدیث میں فحش غلطی کی ہے) … پی گئے ہیں کیونکہ یہیں سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ یہ گذشتہ روایت ہی ہے جس میں مذکورہ واقعہ کا اضافہ ہے او راس اضافے کو امام طبرانی نے نقل کرنے کے بعد اس کی وضاحت بھی کردی ہے کہ یہ عون بن عمارہ کی فحش غلطی ہے۔لہٰذا یہ قصہ غیر محفوظ (منکر) ہے۔ علاوہ ازیں اگر یہ روایت درست ہوتی تو پھر آج تک کوئی صحابی، تابعی اور مسلمان نابینا نہیں ہوسکتا تھا بلکہ ہر نابینا اس روایت پر عمل کرکے بصارت حاصل کرلیتا لیکن فی الواقع ایسا نہیں !!
۳۔ قبر مبارک کی چھت پر روشن دان
ابوالجوزاء حضرت اوس بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں سخت قحط پڑا۔ اہل مدینہ نے اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو دیکھو اور آسمان کی طرف اس کا روشن دان کھول دو تاکہ اس کے اور آسمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اتنی بارش ہوئی کہ سبزہ اگا، اونٹ موٹے ہوگئے اور چربی کی زیادتی کی وجہ سے ان کے جسم پھٹ گئے۔ چنانچہ اس سال کا نام ہی عام الفتق رکھ دیا گیا ( دارمی: ۱/ ۴۳، بحوالہ رسالہ مذکورہ ۵۳)
حدیث ِکو ّہ پرامام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا تبصرہ: آپ فرماتے ہیں کہ ’’ما روی عن عائشة من فتح الکوۃ من قبرِ الی السماء لينزل المطر فليس بصحيح ولا يثبت اسنادہ‘‘ (کتاب الرد علی البکری: صفحہ ۶۸)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق روایت جس میں قبر مبارک کی چھت میں سوراخ کرنا ذکر ہے تاکہ