کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 31
اس لئے علما نے اس حدیث کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں شمار کیا ہے۔ لہٰذا اس حدیث کو اگر صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس میں یہ کہاں ہے کہ وہ نابینا صحابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو وسیلہ بنا رہا تھا بلکہ وہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبول دعا کو وسیلہ بنا رہا تھا۔ اسی لئے اس نے آکر سب سے پہلے یہی بات کہی کہ’’ادع اللَّه أن يعافيني‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کریں کہ اللہ مجھے صحت عطا کردے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں دعا کردیتا ہوں لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ لیکن اس نے اصرار کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعا ہی فرمائیں ۔ پھر اس روایت کے آخر میں بھی اس نابینے صحابی نے یہ کہا کہ ’’یا اللہ! میرے حق میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔
لہٰذا اس روایت کے ہر ہر جملے سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ وہ صحابی رضی اللہ عنہ آپ کی ذات کو وسیلہ نہیں بنا رہا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو وسیلہ سمجھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حق میں دعا کروانے کااصرار کرتا ہے اور دعا کا وسیلہ تو مشروع ہے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نابینا کے لئے دعا کی اور اس نے خود بھی اللہ سے دعا مانگی، اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور وہ نابینا، بینا ہوگیا۔
جبکہ محل نزاع مسئلہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی شخص اور ذات کووسیلہ بنانا درست ہے یا نہیں ۔ اس روایت میں یا دیگر کسی بھی روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو وسیلہ بنانا مذکور نہیں وگرنہ اس اندھے شخص کو تکلیف اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ اپنے گھر میں بیٹھا ہی یہ دعا کرلیتا کہ ’’یا اللہ! اپنے نبی کے جاہ و مقام کے وسیلے سے میری بینائی لوٹا دے۔‘‘ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا…!‘‘
حدیث ِاعمیٰ پر شاہ ولی اللہ صاحب کا تبصرہ: آپ فرماتے ہیں کہ
’’اس حدیث میں دو طریق غیر صحیح ہیں : اقبح اور قبیح۔ اوّل الذکر بہت برا اس لئے ہے کہ گور پرستوں نے بزعم خود یہ سمجھا ہے کہ بزرگوں کی روحوں کو پکارنا اور حاجت براری کی درخواست کرنا سنت اور مستحب ہے۔ مگر یہ گناہ کو حلال تصور کرتا ہے اور گناہ کو حلال سمجھنا کفر ہے۔ آخر الذکر اس لئے برا ہے کہ بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ اپنی حاجتوں میں نیک روحوں کو پکارنا اور اپنی ضرورتوں کو پورا کرنا کے لئے بزرگوں کو خدا کے ہاں سفارشی بنانا اور سفارش کو اپنے حق میں مقبول سمجھنا درست ہے مگر یہ اُمور دین میں بغیر اِذنِ شارع، اس رائے سے اباحت اور جواز پیدا کرنا ہے اور یہی وجہ اصل برائی کی ہے۔ ‘‘ فرمانِ خداوندی ہے﴿ أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّـهُ﴾ (الشوری:۲۱)
’’کیا ان کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے شرع مقرر کی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیں اذن نہیں دیا۔‘‘
﴿ أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّـهِ شُفَعَاءَ ۚ قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ﴾(الزمر:۳۹)
’’انہوں نے اللہ کے سوا سفارشی بنا رکھے ہیں اگرچہ یہ سفارشی نہ کسی چیز کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ہی سمجھتے ہیں ۔(پھر بھی ان کو سفارشی بناتے ہیں )‘‘
بعض لوگ انتہائی ضلالت میں ہیں ۔ شافع اور مشفوع میں فرق نہ کرتے ہوئے یا شیخ عبدالقادر