کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 30
دیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے الرد علی البکری (ص:۲۱) اور منہاج السنۃ (۷/۱۳۱) میں اسے بے بنیاد کہا ہے۔ ابن عبدالہادی نے الصارم المنکی (ص:۳۶) میں اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے السلسلۃ الضعیفۃ (۱/۳۸) اور التوسل (ص:۱۰۲) میں اس روایت کو جعلی اور من گھڑت ثابت کیا ہے۔ یہ روایت موضوع ہونے کے ساتھ قرآنِ مجید کی صریح نصوص کے بھی خلاف ہے کیونکہ قرآنِ مجید میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی لغزش کی معافی کے لئے یہ دعا کی تھی: ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾ (الاعراف:۲۳) ’’اے ہمارے ربّ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا او رہم پر رحم نہ کیا تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘ ۲۔ حدیث ِاعمیٰ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک نابینا صحابی بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر درخواست کرتے ہیں کہ میرے لئے بینائی کی دعا فرمائی جائے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچاہو تو میں تمہارے لئے دعا کرتا ہوں اور چاہو تو صبر کرو اور صبر تمہارے لئے بہتر ہے۔ انہوں نے عرض کیا: دعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھی طرح وضو کرکے دو رکعت ادا کرو اور یہ دعا مانگو: ’’اللهم انی أسئلک وأتوجه إليك بمحمد نبی الرحمة يامحمد إنی توجهت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضٰی، اللهم شفعه فیّ‘‘ (مستدرک حاکم:۱ / ۵۱۹، بیروت) ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف نبی رحمت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں ۔ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کے وسیلے سے اپنی اس حاجت میں اپنے ربّ کی طرف توجہ کرتا ہوں تاکہ یہ پوری کردی جائے ۔ اے اللہ میرے حق میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔‘‘ امام طبرانی کی روایت میں ہے کہ ابھی ہم وہیں بیٹھے تھے کہ وہ صاحب تشریف لائے۔ ان کی بینائی بحال ہوچکی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ انہیں کبھی تکلیف ہوئی ہی نہ تھی۔‘‘(رسالہ مذکور، صفحہ ۴۸، معجم صغیر للطبرانی، صفحہ ۱۰۳) علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ’قاعدہ فی التوسل‘ (صفحہ ۱۰۰تا ۱۰۵) میں اس حدیث پر تفصیلی بحث کرکے ثابت کیا ہے کہ اس کے متن میں اضطراب پایا جاتا ہے او راس حدیث کے ایک راوی ابوجعفر میں بھی اختلا ف پایا جاتا ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ ’’اگر اس حدیث کو صحیح بھی تسلیم کیا جائے تو پھر بھی اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو وسیلہ بنانے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوسکتا کیونکہ مذکورہ صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو وسیلہ سمجھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی تھی۔ چونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ثابت ہوا کہ آپ کی دعا سے ا س کی بینائی لوٹ آئی