کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 3
اسلامی نظریاتی کونسل کی مذکورہ بالا رپورٹ کے آٹھ سال بعد ستمبر ۱۹۷۷ء میں صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے کونسل سے رجوع کیا اور کہا کہ کونسل ایسے طریقے بھی تجویز کرے جن کواپناکر سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جاسکے۔ جس پر اسلامی نظریاتی کونسل نے بنک ماہرین، اقتصادیات کے ماہرین اور علما سے طویل مباحث اور عالمی سطح پر اس مسئلے کی پیچیدگیوں کے گہرے مطالعے کے بعد اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دی اور ۲۵/ جون ۱۹۸۰ء کو یہ رپورٹ صدرِ پاکستان کے سامنے پیش کردی۔ اس رپورٹ میں سود کوختم کرکے اس کے متبادل نظام کی تفصیلات درج تھیں اور کہا گیا تھا کہ ان تجاویز پر عمل درآمد سے دوسال کے اندر اندر پاکستان کی معیشت سود سے مکمل طور پر پاک ہوسکتی ہے۔ اس رپورٹ کے وصول ہونے پر صدر ضیاء الحق نے بین الاقوامی سطح کے ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ جس کا عنوان تھا ’اسلام کا اقتصادی نظام‘ … اس سیمینار کے شرکا نے اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کو نہ صرف سراہا بلکہ اسے دیگر اسلامی ممالک کے لئے بھی مشعل راہ قرار دیا۔ اس رپورٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کنگعبدالعزیز یونیورسٹی، جدہ نے اس کا عربی زبان میں ترجمہ کرکے اپنی حکومت اور عوام کے استفادہ کے لئے شائع کیا۔ لیکن افسوس کہ اس رپورٹ پرافسر شاہی نے پوری طرح سے عمل نہ کیا۔ بنک کھاتوں کو نفع نقصان کی بنیاد پر ازسر نو ترتیب دیا گیا اور اقتصادی نظام میں مشارکہ اور مضاربہ کی اصناف متعارف کروائی گئیں ۔ لیکن یہ سب کچھ نیم دلانہ انداز اور بہت محدود پیمانے پر ہوا۔ نتیجہ یہ کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی ایک اور رپورٹ میں مندرجہ ذیل الفاظ میں اظہارِ افسوس کیا : ’’کو نسل نے ۸۱/۱۹۸۰ء میں کئے جانے والے ان اقدامات کاجائزہ لیا جو حکومت نے اسلامی نظامِ معیشت کے نفاذ کے سلسلے میں انجام دیئے ہیں ۔ ان میں خاتمہ سود کے لئے کئے جانے والے اقدامات، ان سفارشات کے بالکل برعکس ہیں جو کونسل نے تجویز کئے تھے … حکومت نے وہ طریقہ اختیار کیا جو مقصد کو فوت کرنے کا سبب بن گیا۔‘‘ کونسل کی مذکورہ بالا رائے اور انتباہ حکومت کے ’مردانِ ناداں ‘ پر کلامِ نرم و نازک کی طرح بے اثر ثابت ہوا۔ ان حالات میں ۱۹۹۰ء کے دوران پاکستان کے ایک شہری محمو د الرحمن فیصل نے وفاقی شرعی عدالت میں پٹیشن نمبر 30/I داخل کی۔ اور استدعا کی کہ عدالت رائج الوقت سودی نظامِ معیشت کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کردے اور حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ پاکستان کے معاشی نظام سے سود کا چلن ختم کردے۔ عدالت نے سود کے کیس کی سماعت شروع کی تو بہت سے دوسرے ادارے، اشخاص، قانون دان اور خود حکومت اس طرف متوجہ ہوئی اور عدالت کے پاس سودی مسئلہ پر کل ملا کر ۱۱۵ مقدمات جمع ہوگئے۔ وفاقی شرعی عدالت نے ان سب مقدمات کی مشترکہ سماعت کی اور اکتوبر ۱۹۹۱ء میں