کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 29
ترجمہ ہے) سے دعا مانگتا ہوں کہ میری مغفرت فرما۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے آدم! تم نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے پہچانا؟ حالانکہ میں نے ابھی انہیں پیدا بھی نہیں کیا۔ عرض کیا، میرے ربّ! جب تو نے میرا جسم اپنے دست ِقدرت سے بنایا اور میرے اندر روحِ خاص پھونکی تو میں نے سر اٹھایا، کیا دیکھتا ہوں کہ عرش کے پایوں پر ’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘ لکھا ہوا ہے۔ میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اس ہستی کا نام لکھا ہوا ہے جو تجھے تمام خلق سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے سچ کہا۔ وہ مجھے تمام خلق سے زیادہ محبوب ہے، تم مجھ سے ان کے وسیلے سے دعا مانگو۔ میں نے تمہاری مغفرت فرما دی۔ اگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔‘‘ (مستدرک حاکم، کتاب التاریخ: ۲/ ۶۱۵، بحوالہ رسالہ مذکورہ، صفحہ ۴۲) قادری صاحب کی پیش کردہ یہ دلیل محدثین کے ہاں ضعیف ہی نہیں بلکہ موضوع (جھوٹی) اورمن گھڑت بھی ہے۔ کبار محدثین نے اس حدیث پر موضوع (ضعیف) ہونے کا حکم لگایا ہے۔ قادری صاحب نے مستدرک حاکم کے حوالے سے اس حدیث کو ذکر کرکے کمال علمی خیانت کا ثبوت دیا ہے کیونکہ مذکورہ کتاب کے محولہ صفحہ (۲/۶۱۵) پر ہی امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قلت: ’’بل موضوع وعبدالرحمن واہ‘‘ ’’میں کہتا ہوں کہ یہ حدیث موضوع ہے اور عبدالرحمن (بن زید بن اسلم) راوی کمزور ہے۔‘‘ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ جیسے ثقہ او رماہر محدث کے فیصلے کو چیلنج کرنا کوئی معمولی بات نہیں لیکن قادری صاحب نے حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلے پر علمی بحث کرنے کی بجائے اسے ہڑپ کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اور صرف امام حاکم کے حوالے سے یہ ذکر کردیا کہ ’’اس کی سند صحیح ہے۔‘‘ حالانکہ یہ بات معروف ہے کہ امام حاکم احادیث پر حکم لگانے میں متساہل ہیں اور مذکورہ مثال بھی اس تساہل کی ترجمانی کرتی ہے کیونکہ امام حاکم نے خود ہی اس حدیث کے راوی عبدالرحمن بن زید کے بارے میں ’المدخل‘ میں یہ بات کہی ہے کہ ’’روی عن أبيه أحاديث موضوعة لا يخفي علی من تأملهامن أھل الصناعة أن الحمل فيهاعليه‘‘ (ص:۱۵۴) ’’ یہ (عبدالرحمن) اپنے والد سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے جیسا کہ اہل فن میں سے معمولی سا غوروفکر کرنے والوں پربھی یہ بات مخفی نہیں ۔ ‘‘ لہٰذا جب امام حاکم نے خود ہی اس روایت کے مرکزی راوی عبدالرحمن بن زید کے بارے میں یہ فیصلہ کردیا ہے کہ وہ جعلی احادیث بیان کرتا ہے اور دیگر ائمہ مثلاً امام ذہبی (میزان الاعتدال:۲/۵۰۴) وغیرہ نے بھی اس راوی کو ضعیف قرار دیا ہے تو پھر یہ حدیث ’صحت‘ کے معیار تک کیسے پہنچ سکتی ہے؟ علاوہ ازیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لسان المیزان (۳/۳۵۹) میں اس روایت کوباطل،من گھڑت قرار