کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 27
صاحب اس حدیث سے کیا سمجھانا چاہتے ہیں ؟
۶۔ غلط استدلال
عہد ِفاروقی کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ قحط پڑا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بارش کی دعا کرنے کے لئے کہا اور خود یوں فرمایا:
’’یااللہ! ہم تیری طرف اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ پیش کیا کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب کردیا کرتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کے چچا کو تیری طرف وسیلہ بناتے ہیں تو ہمیں سیراب کر۔ (حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، راوی) کہتے ہیں تو انہیں بارش عطا کردی جاتی۔‘‘
اس حدیث کا متن بمعہ ترجمہ پیش کرنے کے بعد قادری صاحب لکھتے ہیں کہ’’ابن تیمیہ اور ان کے مقلدین کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ پیش کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد توسل جائز نہیں ۔ یہ کھلا ہوا مغالطہ ہے کیونکہ : (۱) اس حدیث سے ثابت ہوگیا کہ بارگاہِ الٰہی میں صرف اعمال صالحہ کا وسیلہ پیش کرنا ہی جائز نہیں ۔ بلکہ ذواتِ صالحین کا وسیلہ پیش کرنا بھی جائز ہے اور اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔کیونکہ یہ دعا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع میں مانگی گئی اور کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ جبکہ تمہیں اس سے انکار ہے اور (۲) اگرچہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہ برگزیدہ ہستی ہیں کہ خود ان کا وسیلہ بھی پیش کیا جاسکتا تھا لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یوں عرض کیا کہ یااللہ! ہم اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں ۔ تو یہ دراصل حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وسیلہ ہے۔‘‘ (رسالہ مذکور، صفحہ ۵۸)
اب دیکھئے کہ اس حدیث سے جو نتائج سامنے آتے ہیں ، وہ یہ ہیں کہ
۱۔ فوت شدہ اولیا تو درکنار انبیا بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ بھی جائز نہیں ۔ اگر یہ جائز ہوتا تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو سامنے لانے کی کیا ضرورت تھی۔ قادری صاحب کا یہ ارشاد کہ نبی کے چچا کا وسیلہ گویا نبی کا ہی وسیلہ تھا، بھی ایک فریب ہے۔ جب آپ کے نزدیک براہِ راست رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو بعد ازوصال وسیلہ بنایا جاسکتا ہے تو درمیان میں ان کے کسی بھی رشتہ دار کا واسطہ لانا گویا اصل وسیلہ کو خود ہی کمزو رکردینے کے مترادف ہے!
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ بھی یہ تھا کہ وہ دعا یا سفارش کرتے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بھی دعا ہی کی۔ تو اس لحاظ سے بھی اعمالِ صالحہ ہی وسیلہ قرار پاتے ہیں اور یہی بات فریقین میں مسلم ہے۔ رہا ذوات کے وسیلہ کا مسئلہ تو کم از کم یہ حدیث قطع نزاع کے سلسلہ میں مفید مطلب نہیں ہے۔ذوات کا توسل صرف اس صورت میں ثابت ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص کسی فوت شدہ یا غائب بزرگ کا واسطہ دے کر خود دعا کرے اور ظاہر ہے کہ یہاں یہ صورت نہیں ہے۔