کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 26
وحاجته فقال لی: سَلْ، فقلت: اسئلک مرافقتک فی الجنة: قال أوغيرذلک: قلت ھو ذاک: قال: فأَعِنِّیْ علی نفسک بکثرۃ السجود‘‘ (رواہ مسلم : حدیث ۷۵۴) ’’حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات گزارا کرتاتھا۔ (ایک رات جب) میں نے آپ کی خدمت میں وضو کا پانی اور دیگر ضرورت کی اشیا (مسواک وغیرہ) پیش کیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ مانگ لے۔ میں نے کہا: میں آپ سے جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت مانگتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ اور، میں نے عرض کیا: بس یہی کچھ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو میری امداد کر اپنے نفس پر کثرت سجود سے۔‘‘ غور کیجئے! حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی دلی مراد کا سوال پیش کررہے ہیں ۔ جواباً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں منع نہیں فرماتے کہ تم مجھ سے کیوں مانگ رہے ہو۔ جنت چاہتے ہو تو خدا سے مانگو۔ میں کون ہوتا ہوں ، جنت دینے والا۔ بلکہ ان سے وعدہ فرما یا جاتا ہے، ان سے مدد طلب کی جاتی ہے کہ سجدے کثرت سے ادا کرو۔ جنت میں میری رفاقت عطا کردی جائے گا۔‘‘(رسالہ مذکورہ: صفحہ ۱۴) اب دیکھئے مندرجہ بالا حدیث کی رو سے مدد طلب کرنے والے ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ اور جن سے مدد چاہی جارہی ہے وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اور دونوں آمنے سامنے ہیں ۔ مدد کا ذریعہ یا وسیلہ اعمالِ صالحہ یا کثرتِ سجود ہے۔ ایسی صورت میں استعانت تو بالاتفاق جائز ہے۔ پھر معلوم نہیں، اس حدیث کے ذکر کرنے سے آپ ثابت کیاکرنا چاہتے ہیں ؟ البتہ حدیث کی تشریح میں قادری صاحب کے چند جملے قابل غور ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ کے اس سوال پر یہ نہیں فرمایا کہ جنت چاہتے ہو تو خدا سے مانگو، میں کون ہوتا ہوں دینے والا؟‘‘ اب سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے اس صحابی کو واقعی جنت دے دی تھی؟ایمان اور اعمالِ صالحہ کی شرط پر جنت کی خوشخبری دینا سب پیغمبروں کا کام ہوتا ہے۔ چونکہ اس صحابی نے جنت کے علاوہ آپ کی رفاقت کا بھی سوال کیا تھا۔ جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت السجود کی اضافی شرط بھی عائد کردی۔ اسی حدیث کو آگے چل کر قادری صاحب نے توسل کے بیان میں بھی بایں الفاظ ذکر فرمایا ہے: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے توسل کبھی اس طرح ہوتا ہے کہ ایک چیز آپ سے طلب کی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ بارگاہِ الٰہی میں دعا، شفاعت کے ذریعہ سبب بننے پر قادر ہیں ۔ اس کا مآل یہ ہوگا کہ آپ سے دعا کی درخواست ہے۔‘‘ (ایضاً: صفحہ ۴۵) اس تشریح سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک زندہ شخص دوسرے زندہ شخص کو دعا یا شفاعت کے لئے کہہ سکتا ہے اور یہ دعا یا شفاعت وسیلہ بن سکتی ہے تو ان باتوں سے تو کسی کو انکارنہیں ۔معلوم نہیں قادری