کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 24
تشفع:بمعنی سفارش کے لئے کہنا (منجد)، شفاعت کرنا( منتہی الادب) استغاثۃ: غوث سے، بمعنی مدد کے لئے چلانا اور استغاث یعنی مدد چاہنا (منجد) غوث یعنی فریاد و فریاد رس۔ استغاثۃ یعنی فریاد خواستن (منتہی الادب) مذکورہ حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ توسل، استعانت اور شفاعت میں فرق ہے۔ علاوہ ازیں توسل کے لغوی معانی میں تین چیزیں شامل ہیں : (۱) تقرب (۲) رغبت (۳) اور حاجت و ضرورت، جبکہ اصطلاحِ شرع میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں اعمالِ صالحہ بجالانا او ران اعمالِ صالحہ کے ذریعہ اللہ کی رضا تلاش کرنے کو ’توسل‘ سے موسوم کیا جاتا ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ ﴾(المائدۃ:۳۵) کا یہی مفہوم صحابہ، تابعین اور مفسرین سے منقول ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: تفسیر ابن کثیر (۲/۵۲ ،۵۳) اور قاعدۃ فی التوسل لابن تیمیہ (ص۴۸) سلف صالحین میں وسیلہ کا یہی مفہوم رائج تھا جبکہ متاخرین نے ’رضاے الٰہی کے حصول کے لئے انبیاء واولیا کی ذاتوں اور غیراللہ کو پکارنے اور ان سے مدد طلب کرنے‘ کو بھی وسیلہ کہنا شروع کردیا ہے۔ اس طرح ایک شرکیہ عمل کے جواز کی مذموم کوشش کرکے مسلمانوں کو گمراہ کیا جانے لگا۔ چوتھاطریقہ: مغالطہ آفرینی اور فریب دہی قادری صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’یہی عقیدہ امام احمدر ضا بریلوی نے بیان کیا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں : ’’جو شرک ہے وہ جس کے ساتھ کیا جائے گا شرک ہی ہوگا اور ایک کیلئے شرک نہیں تو وہ کسی کیلئے شرک نہیں ہوسکتا۔ کیا اللہ کے شریک مردے نہیں ہوسکتے، زندہ ہوسکتے ہیں ؟ دور کے نہیں ہوسکتے، پاس کے ہوسکتے ہیں ؟ انبیا نہیں ہوسکتے ، کلیم ہوسکتے ہیں ؟ انسان نہیں ہوسکتے فرشتے ہوسکتے ہیں ؟ حاشا للہ ، اللہ کا شریک کوئی نہیں ہوسکتا۔‘‘ (برکات الامداد: ص ۲۸ بحوالہ رسالہ مذکور ص ۲۷) مندرجہ بالا اقتباس میں امام اہلسنّت نے زبان ذرا مغلق استعمال فرمائی ہے، ہم اسے آسان زبان میں پیش کرکے اس کا جواب دیں گے۔ آپ یہ فرما رہے ہیں کہ اگر زندوں سے استعانت جائز ہے اور شرک نہیں تو مردوں سے استعانت کیسے شرک بن سکتی ہے؟ اس اقتباس سے پیشتر نواب وحید الزمان کے حوالہ سے زندوں اور مردوں سے استعانت کو ایک سطح پر رکھنے کے لئے جو دلیل پیش کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر زندہ سے استعانت جائز ہے تو مردہ سے بھی جائز ہونی چاہئے کیونکہ غیر اللہ ہونے میں زندہ اور مردہ دونوں برابر ہیں ۔