کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 21
اور اس کو دور دور سے پکارے تو وہ بھی مشرک ہوجاتا ہے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لبیک لا شریک لک پر فرماتے تھے کہ یہیں تک رہنے دو۔ مگر وہ ملاعنین کب سنتے تھے۔‘‘
حدیث ِبالاسے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین مکہ جو کام اپنے بتوں سے لیتے تھے، وہی کام آج کا مسلمان اپنے زندہ یا فوت شدہ بزرگوں سے لیتا ہے۔ ان کے بت بھی فوت شدہ بزرگوں ہی کے مجسّمے ہوتے تھے۔ ان کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ ان مجسّموں سے ان بزرگوں کی روحوں کا تعلق قائم ہے جن کے یہ مجسّمے تھے اور یہی عقیدہ آج کے مسلمان کا ہے۔ وہ بھی قبروں پر چلہ کشی اسی لئے کرتا ہے کہ اس بزرگ کی روح کا تعلق بدستور اس قبر سے قائم ہے۔ مشرکین مکہ اور موجودہ مسلمان میں اگر کچھ فرق ہے تو صرف یہ کہ وہ کھلے دل سے یہ کہہ دیتے تھے کہ یہ ہیں تیرے شریک ہی، تیرے برابر نہ سہی چھوٹے سہی۔ گو ان کا بھی حقیقی مالک تو ہی ہے اور وہ حقیقتاً کسی چیز کے بھی مالک نہیں ، تاہم وہ تیرے شریک ہیں ۔ لیکن آج کامسلمان انہیں شریک نہ کہنے کے باوجود ان کے سپرد وہی کام کرتا ہے جو کام مشرکین اپنے بتوں کے سپرد کرتے تھے اور یہ تو ظاہر ہے کہ نام نہ لینے یا نام بدل لینے سے اصل حقیقت میں چنداں فرق نہیں پڑتا۔
حیلہ نمبر۲:حقیقت اور مجاز کا فلسفہ
صاحب ِرسالہ فرماتے ہیں کہ ’’نسبت کی دو قسمیں ہوتی ہیں : (۱) حقیقت ِعقلیہ اور (۲) مجازِ عقلی۔ مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ نے سبزہ اگایا تو یہ حقیقت ِعقلیہ ہے کیونکہ سبزہ اگانا اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے اور اگر کوئی یہ کہے کہ امیر نے شہر بنایا تو یہ مجازِ عقلی ہے کیونکہ حقیقتاً بنانے والے تو مستری اور مزدور ہیں ۔ امیر تو ایک سبب ہے جس کی طرف نسبت کردی گئی۔ اب اس سے اگلا قدم یہ ہے کہ اگر ایک موحد یہ کہے کہ موسم بہار نے سبزہ اگایا تو اسے اِسنادِ مجازی کہا جائے گا۔کیونکہ موحد کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ سبزہ اگانا موسم بہار کی صفت ہے، جبکہ یہی بات اگر اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر کہے گا تو اسے حقیقت کہا جائے گا۔ اسی طرح اگر کافر نے کہا کہ طبیب نے مریض کو شفا دی تو یہ حقیقت ہے۔ یہی بات اگر مؤمن نے کہی تو اسے مجازِ عقلی کہا جائے گا اور اس کا ایماندار ہونا اس بات کی علامت ہوگاکہ وہ شفا کی نسبت طبیب کی تعریف اس لئے کررہا ہے کہ وہ شفا کا سبب ہے، اس لئے نسبت نہیں کررہا کہ فی الواقع طبیب نے شفا دی۔ شفا دینا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔
اس گفتگو پر غور کرلینے سے مسئلہ استعانت کی حیثیت بالکل واضح ہوجاتی ہے۔کیونکہ انبیاء و اولیا سے مدد چاہنے والااگر مؤمن ہے تو اس کا ایماندار ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اس کے نزدیک کارسازِ حقیقی، مقاصد کا پورا کرنے والا، حاجتیں برلانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، ان اُمور کی نسبت