کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 20
ظاہری اسباب سے متعلق ہیں ۔ ان باتوں سے کسی کافر کو انکار ہوسکتا ہے نیز آپ کی وہابی صاحبان سے برہمی اس وجہ سے بے محل ہے کہ جو امداد ظاہری اسباب کی بنا پر لی یا دی جارہی ہو، اسے کوئی سخت سے سخت وہابی بھی شرک نہیں کہتا۔ یہ شرک صرف اس صورت میں ہوگا جبکہ ظاہری اسباب مفقود ہوں جیسے کسی کا یوں پکارنا کہ امداد کن امداد کن از رنج و غم آزاد کن دردین و دنیا شاد کن یا شیخ عبدالقادرا ! یا کسی پنجابی مسلمان کا منجدھار میں پھنسنے کی حالت میں یوں پکارنا: یا بہاء الحق! بیڑا بنّے دھک علاوہ ازیں امام موصوف نے ذاتی قدرت اور عطائی قدرت کا مذکورہ بالا مثالوں سے متعلق جو فلسفہ پیش فرمایا ہے، وہ بھی قطع نزاع کے سلسلہ میں بے کار ہے۔ جس بات کو آپ صریح شرک فرما رہے ہیں یعنی حکیم کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اپنی قدرت سے شفا دے رہا ہے اور دوائی کے متعلق یہ سمجھنا کہ یہ بالخاصہ شفا بخش رہی ہے وغیرہ وغیرہ تو ایسا شرک کوئی مسلمان بھی نہیں کرتا کیونکہ یہ سب باتیں ظاہری اسباب کے تحت آرہی ہیں ۔ شرک کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب ظاہری اسباب مفقود ہوں ۔ مثلاً گذشتہ مثالوں میں اگر کوئی شخص یہ سمجھ کر شیخ عبدالقادر کو پکارتا ہے کہ حقیقی عطا کنندہ تو واقعی اللہ تعالیٰ ہے۔ شیخ عبدالقادر تومحض اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قدرت و قوت کے تحت ہی امداد کرسکتے ہیں یا شیخ بہاء الحق بھی منجدھار سے بیڑا اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوت کے ذریعہ ہی پار لگا سکتے ہیں تو ایسی پکار صریح شرک ہوگی۔ اس ذاتی اور عطائی قدرت کے فلسفہ کے تو مشرکین مکہ بھی قائل تھے۔ وہ جب حج کے دوران تلبیہ پکارتے تو یوں کہتے: ’’عن ابن عباس رضی اللَّه عنه قال: کان المشرکون يقولون لبيك لا شريك لک لبيك قال فيقول: رسول اللَّه صلی اللَّہ علیہ وسلم ويلكم قد قد۔ فيقولون: إلا شريكا ھو لک تملكه وما ملک۔ يقولون ھذا وھم يطوفون البيت‘‘ (مسلم: کتاب الحج، باب التلبیہ) ’’عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : مشرکین کہا کرتے تھے: لبیک لا شریک لک۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: تمہاری خرابی ہو، یہیں تک رہنے دو (یعنی آگے کچھ نہ کہو) لیکن وہ اس کے آگے کہتے: مگر ایک شریک جو تیرے ہی لئے ہے تو ہی اس کامالک ہے اور وہ کسی چیز کا مالک نہیں … اس وقت یہ کہتے جب وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہوتے تھے۔‘‘ مندرجہ بالاحدیث پر مسلم شریف کے مترجم علامہ وحیدالزمان کا حاشیہ یہ ہے : ’’غرض اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ بھی اپنے شریکوں کو اللہ کے برابر نہیں جانتے تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ کو ہر شے کا مالک جانتے تھے اور ان کو کسی شے کا مالک نہ جانتے تھے۔ تاہم ان کو پکارنا اور اپنا سفارشی اور وکیل قرار دینا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کے مشرک ہونے اور ابدالآباد دوزخ میں جھونکنے کو کافی تھا۔ پس معلوم ہوا کہ جو اپنا حمایتی اور وکیل اور سفارشی سمجھ کر بھی کسی کی عبادت کرے