کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 19
اور اگر ظاہری اسباب موجود ہوں یعنی جس سے مدد طلب کی جارہی ہے، وہ پاس ہی موجود ہو تو اس کو پکارنا، مدد کے لئے کہنا، اس سے دعا کروانا، غرضیکہ سب کچھ جائز ہوگا اور اس میں شرک کا کوئی شائبہ نہ ہوگا۔ اور مذکورہ کتابچے(صفحہ :۱۲)میں جن قرآنی آیات یا احادیث کو استعانت کے بغیر اللہ کیلئے بطورِ دلیل ذکر کیا گیا ہے، ان کا تعلق ظاہری اسباب سے ہے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہ آیت پیش کی گئی ہے: ﴿كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ…﴾(الصف:۱۴) ’’جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے حواریوں سے کہا تھا کہ اللہ کی طرف (بلانے میں ) کون میرا مددگار ہے؟‘‘ اس آیت کو انصاف سے دیکھا جائے تو اس میں کہیں یہ بات دکھائی نہیں دے گی کہ معاذ اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے غیر اللہ (اپنے ساتھیوں ) سے مافوق الاسباب امر میں مدد طلب کی ہو بلکہ انہوں نے اپنے ساتھیوں سے جس استعانت کا تقاضا کیا، وہ ظاہری اسباب کے تحت کی جانے والی ممکن الاستطاعت تعاون ہے، وگرنہ اس سے دو قباحتیں لازم آئیں گی: (۱) حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے (معاذ اللہ) شرک کا ارتکاب کیا حالانکہ یہ ناممکن بات ہے! (۲) خود ایک برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سے کم تر درجے کے افراد کے سامنے دست ِسوال دراز کیا حالانکہ اگر اس عمل کو ماتحت الاسباب میں شامل نہ سمجھا جائے تو اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین واہانت لازم آئے گی !! اللہ ہمیں اس گستاخی سے معاف رکھے۔ مزید تفصیل ’بے کار دلائل‘ میں ملاحظہ فرمائیے۔ اب ہم ان دلائل کا جائزہ لیں گے جن کی بنیاد پر استمداد بغیر اللہ کو جائز بلکہ مستحسن قرار دیا گیاہے : پہلی دلیل: ذاتی اور عطائی کا فلسفہ عقیدۂ استمداد سے متعلق جناب احمد رضا خان بریلوی فرماتے ہیں : ’’اس استعانت ہی کو دیکھئے کہ جس معنی پر غیر خدا سے شرک ہے یعنی اسے قادر بالذات ومالک مستقل جان کر مدد مانگنا بایں معنی کہ اگر دفع مرض میں طبیب یا دوا سے استمداد کرے یا حاجت ِفقر میں امیر یا بادشاہ کے پاس جائے یا انصاف کرانے کو کسی کچہری میں مقدمہ لڑائے۔ بلکہ کسی کے روزمرہ کے معمولی کاموں میں مدد لے جو بالیقین تمام وہابی صاحب روزانہ اپنی عورتوں ، بچوں ، نوکروں سے کرتے کراتے رہتے ہیں مثلاً یہ کہنا کہ فلاں چیز اٹھادے یا کھانا پکادے، سب قطعی شرک ہے کہ جب یہ جانا کہ اس کام کے کردینے پر خود انہیں اپنی ذات سے بے عطائے الٰہی قدرت ہے تو صریح کفر و شرک میں کیا شبہ رہا؟ اور جس معنی پر ان سب سے استعانت شرک نہیں یعنی مظہر عونِ الٰہی و واسطہ و وسیلہ و سبب سمجھنا، اس معنی پر حضرات انبیا، اولیا علیہم افضل الصلوٰۃ سے کیوں شرک ہونے لگی؟‘‘ (برکات الامداد: ص ۲۸،۲۹ از احمد رضا خان بریلوی، بحوالہ ر سالہ مذکور، ص ۵،۶) مندرجہ بالااقتباس میں امامِ اہلسنّت نے مغالطہ یہ دیا ہے کہ جتنی مثالیں بیان فرمائی ہیں ، سب