کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 18
بالفاظِ دیگر اس کتاب کا جواب لکھنے کی استدعا کی گئی تھی۔ کتابِ مذکورہ میں غیر اللہ سے استمداد و استعانت کو صرف جائز ہی نہیں بلکہ بدلائل اسے مستحسن و مستحب قرار دیا گیاہے۔ اب یہ مسئلہ اس لحاظ سے نہایت اہم قرار پاتا ہے کہ ایک طرف تو ہرمسلمان روزانہ اپنی نمازوں کے دوران سورۂ فاتحہ کی اس آیت ﴿ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ (الفاتحہ: ۴)کو بیسیوں مرتبہ دہراتا ہے، ان الفاظ سے جو مفہوم متبادر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’(اے اللہ!) ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔‘‘ اور دوسری طرف بہت سے مسلمان اپنی عملی زندگی میں غیر اللہ سے استمداد و استعانت چاہ بھی رہے ہیں تو آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ استعانت کیا ہے؟ دعا یا ندا لغیراللہ، استعانت اور توسل (… ان سب امور کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر دعا کو عبادت ہی قرار دیا گیاہے اور حدیث میں تو بالوضاحت الدعاء ھو العبادۃ (ترمذی: ۳۲۴۷) اور الدعاء مُخ العبادۃ (ترمذی: ۳۳۷۱) کے الفاظ مذکور ہیں ۔ اب یہ تو مسلمہ امر ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی ’عبادت‘ جائز نہیں ۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ دعا یا ندا لغیر اللہ بھی جائز نہیں اور یہ صریح شرک ہے۔ بموجب ِارشاد باری تعالیٰ : (وَاَنَّ الْمَسَاجِدَاللَّهِ فَلاَ تَدْعُوْ مَعَ اللَّه ِاَحَدًا﴾ ’’یقینا مساجد اللہ (کی عبادت) کیلئے ہیں ، لہٰذا تم اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔‘‘(الجن:۱۸) اور یہ بھی واضح ہے کہ دعا یا ندا کے بغیر ’استعانت‘ کا تصور بھی ناممکن ہے۔ اب دیکھئے، استعانت دو طرح کے اغراض کے لئے ہی ہوسکتی ہے: جلب ِمنفعت (کسی بھلائی کے حصول) یا رفع حاجات کے لئے اوردفع مضرت کے لئے جسے عام زبان میں ’مشکل کشائی‘ بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ ان دو طرح کی اغراض کے علاوہ اور کوئی قسم نہیں ، جس کے لئے کسی کو پکارا جائے یا اس سے مدد طلب کی جائے۔ قرآن میں بیسیوں مقامات پر بصراحت ذکر ہے کہ ان اغراض کے لئے اللہ کے سوا کسی کو نہ پکارا جائے۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بھی کہلوا دیا کہ ﴿قُلْ اِنِّیْ لاَ اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرَّا وَّلَا رَشَدًا﴾ (الجن: ۲۱)’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں : میں تمہارے لئے کسی نقصان یا نفع کا مالک نہیں ۔‘‘ یعنی دوسرے نبی /ولی تو کسی کی کیا حاجت روائی یا مشکل کشائی کریں گے۔ خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ اعلان فرما رہے ہیں کہ ’’میں بھی تمہیں نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘‘ اور بعض دوسری قرآنی آیات کے مطالعہ کے بعد ’استعانت‘ کے متعلق جو کچھ سمجھ آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ’’اللہ کے سوا کسی ہستی کو خواہ وہ زندہ ہے یا بے جان یا کوئی فوت شدہ بزرگ، حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارنا اس صورت میں شرک ہوتا ہے جبکہ ظاہری اسباب مفقود ہوں ۔‘‘
[1] مکمل استفادہ کے لیے پہلے پڑھیں :’’وسیلہ کیا ہے ، اور جائز وسیلے کون سے ؟‘‘از عبد الجبار سلفی ( محدث : مئی 2000ء)