کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 16
کو غیر معینہ مہلت دے دی گئی ہے۔ سود کے مقدمے میں اور عمومی طور پر عدالتوں پر حکومتی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے کہا کہ اب تویہ کہا جارہا ہے کہ اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کے لئے اپنی مرضی کے جج لگائے جائیں ۔ اس مقصد کے لئے پی سی او کے تحت حلف لئے گئے اور اس کے بعد نئے ججوں کی بھرتی ہوئی۔ جب یہ عمل مکمل ہوگیا تو ظفر علی شاہ کیس میں اپنی مرضی کا فیصلہ حاصل کیا گیا۔ قاضی حسین احمد نے ریفرنڈم کے آرڈر کو چیلنج کیا تو فیصلہ دیا گیا کہ ریفرنڈم کو ہم دستور کی کسوٹی پر نہیں دیکھ سکتے کیونکہ دستور میں اس کا کوئی جواز نہیں ۔ حکومت کہتی ہے کہ ریفرنڈم پی سی او کے تحت ہورہا ہے اور پی سی او کے تحت تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا آئین کی روشنی میں ا س مسئلے کا فیصلہ کسی اور وقت اور کسی اور جگہ ہوگا۔ جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے سود والے کیس کے حوالے سے انکشاف کیا کہ ایک ایسے شخص کو ، جس سے حکومت قانونی معاملات میں مشورہ لیتی ہے اور جو اپنی جادو گری سے اس تمام گورکھ دھندے کو چلا رہے ہیں ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا فون آیا اور انہوں نے پوچھا کہ آپ بتائیں کہ شریعت اپلیٹ بنچ میں ، میں نے سود والے مقدمے کی سماعت کرنا ہے، کس کس جج کو شامل کروں ؟ یوں ان کی منظوری سے یہ بنچ تشکیل پایا۔ ا س بنچ کے بارے میں اتنا ہی کہوں گا کہ اس کے ذریعے انصاف کے سودے کو گندا کیا گیا ہے۔ جہاں تک راقم الحروف کی معلومات کا تعلق ہے۔ حکومت یا قانونی گورکھ دھندہ چلانے والی کسی شخصیت نے یا پھر خود محترم چیف جسٹس نے اس بات کی تردید نہیں کی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ اب سود کا مقدمہ ایک مرتبہ پھر اپنے ابتدائی مرحلے میں پہنچ گیا ہے اور اس میں تازہ فیصلے کے ذریعے بہت سے ’نئے مباحث‘ کا ڈول ڈال دیا گیا ہے۔ سود کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے واضح نقطہ نظر (جس کا ذکر اس مضمون کے آغاز میں کیا گیا ہے) اور آئین کے آرٹیکل ۳۸/ایف کے بعد جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت جس قدر جلد ممکن ہوسکا، ربوٰ کو ختم کرے گی۔ ہمارے خیال میں سود کے بارے میں حرام اور ناجائز ہونے کی بحث کو تو ویسے ہی ختم ہوجانا چاہئے۔ کیونکہ خود آئین اسے ختم کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ اس لئے اب عقل کی عیاری نئے مباحث کی صورت میں بھیس بدل کر سامنے آئے گی اور دلیل دے گی کہ آئین اور قرآن میں ربوٰ کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور ربوٰ کی تعریف سود اور انٹرسٹ سے بالکل الگ ہے۔ یہ مرحلہ دینی حلقوں کے لئے لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ قدرت کی طرف سے ایک بار پھر فکری اور نظریاتی سطح پر سود کے خلاف عدالتی جہاد کی تیاری کے لئے مہلت عطا ہورہی ہے۔ خدا اور سول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سودی جنگ میں مخالف طاقتوں کو شکست دینے کا یہ موقع بھی اگر ضائع کردیا گیا تو یہ نظریۂ پاکستان کے ساتھ ایک ناقابل معافی غفلت کے مترادف ہوگا۔ (ظفر علی راجا، ایڈووکیٹ)