کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 15
جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے جون ۲۰۰۲ء کے زیر نظر فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’نظرثانی اور اپیل میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے۔ اپیل میں نئے سوالات کی محدود حد تک پذیرائی ہوسکتی ہے مگر نظرثانی میں نئے سوالات نہیں اُٹھائے جاسکتے۔ عدالت نے نہ صر ف نئے سوالات اٹھانے دیے بلکہ ان کی بنیاد پر وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپلیٹ بنچ کے فیصلوں کو رد بھی کردیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ عدالت سپریم کورٹ سے بھی بالا کوئی عدالت تھی … ‘‘ جسٹس صاحب نے مزید کہا کہ عدالت کے سامنے سود کو لوگوں کا پرسنل لاء قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ وفاقی شرعی عدالت پرسنل لاء پر فیصلہ دینے کی اہل نہ تھی۔ حالانکہ سود کسی طرح سے بھی پرسنل لاء کے زمرے میں نہیں آتا۔ یہ پوری قوم اور پورے ملک کا مسئلہ ہے، اسی لئے پرنسپل آف پالیسی میں اسے شامل کیا گیا ہے لہٰذا یہ ایک پبلک مسئلہ ہے۔ حکومت نے آئین کے آرٹیکل ۸ سی کے حوالے سے دلیل دی کہ آئین میں سودکا لفظ استعمال کیا گیا ہے جبکہ سود اور ربوٰ میں فرق ہے۔ لہٰذا سود کے بارے میں تو عدالت فیصلہ نہیں کرسکتی البتہ ربوٰ کے بارے میں کرسکتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سود اور ربوٰ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سابقہ فیصلہ جات میں پوری تحقیق کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ جب بھی اعلیٰ عدالتیں کسی فیصلے کی جانچ کرتی ہیں تو پہلے متنازعہ فیصلے کو عدالت میں پڑھوایا جاتا ہے تاکہ سب کو اس کی تفصیلات سے آگاہی ہوجائے۔ جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ جب ہم نے ربوٰ کا کیس سنا تو چار پانچ رو زتک وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ پڑھوا کر کورٹ میں سنا تھا۔ حالیہ سماعت کے دوران نہ تو وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ سنا گیا، نہ ہی خود شریعت اپلیٹ بنچ کا فیصلہ سنا گیا، اس طرح اس فیصلے کے حیثیت قانونی طور پر مجروح ہوجاتی ہے۔ جہاں تک غیر مسلموں پر سود کے امتناعی فیصلے کے نفاذ کا تعلق ہے تو اس بارے میں پوری چھان بین کی گئی تھی ۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں بھی سود کی ممانعت موجود ہے حتیٰ کہ ہندوؤں کے مذہب میں بھی ایسے سود کی ممانعت ہے جس سے غریب طبقات پس کر رہ جائیں ۔ سود صرف اُمت ِمحمدیہ کے لئے ممنوع نہیں ہے بلکہ سابقہ ادیان میں بھی ا س کی نفی ہوچکی ہے اور غیرمسلموں پر اس قانون کے اطلاق کا حکم صریح حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت ہے۔ اگر وفاقی شرعی عدالت یا شریعت اپلیٹ بنچ کے فیصلے میں کچھ نقائص رہ گئے تھے تو اعلیٰ ترین عدالت ہونے کے ناطے خود اس عدالت کی ذمہ داری تھی کہ وہ ’اتنے اہم سوالات‘کی خود سماعت کرتی اور پھر ان پر اپنا فیصلہ سناتی لیکن جس طرح سابقہ دونوں فیصلوں کی نفی کرتے ہوئے سود کے مقدمہ کو دوبارہ نچلی عدالت میں بھیج دیا گیا ہے، اس کا صاف مطلب تو یہی ہے کہ ایک طویل عرصے کے لئے سود پر مبنی غیر اسلامی نظام