کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 14
سود کے زمرے میں نہیں آتی۔ (ii) اس بارے میں بھی فقہی آرا موجود ہیں کہ بنکوں کی طرف سے دیا جانے والا منافع سود کی اس قسم میں شامل نہیں ہے جسے حرام یا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے خالد اسحق کی معروضات کو محض اس لئے نظر انداز کردیا کہ انہوں نے جس مواد پر اپنی رائے قائم کی ہے، اس کی نقول عدالت کو فراہم نہیں کیں ۔شریعت اپلیٹ بنچ کے لئے لازمی تھا کہ وہ مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں مقدمہ وفاقی شرعی عدالت کو واپس ریمانڈ کردیتی۔ تاکہ ازسرنو ان آرا کی جانچ کرنے کے بعد انہیں قبول یا مسترد کرے۔ 5. مندرجہ بالا موجبات کی روشنی میں دیکھا جائے تو بہت سی غلطیاں دونوں متنازعہ فیصلوں کی سطح پر تیرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ ا س لئے مقدمہ کا ریمانڈ کیا جانا قرین انصاف ہے۔ 6. موجودہ بنچ میں شامل علما پر اٹھائے گئے اعتراض کو ردّ کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ دونوں فاضل ارکان مستند سکالر ہیں ۔ عدالت نے مزید قرار دیا کہ ویسے بھی اس اعتراض کو نظرثانی کے ساتھ نہیں اُٹھایا جاسکتا۔ شریعت اپلیٹ بنچ آف سپریم کورٹ کا نظرثانی کی درخواست منظور کرنے والا مذکورہ بالا فیصلہ منظرعام پر آتے ہی ذرائع ابلاغ میں اہل قلم، علمائِ کرام اور قانون دانوں کے بیانات اور مضامین شائع ہونے لگے۔ بہت سے جرائد نے اس حوالے سے خصوصی مضامین اور اہل الرائے کے انٹرویوز شائع کئے۔ عوامی اندازہ تو آغاز ہی سے یہی تھا کہ سپریم کورٹ حکومت کی درخواست کو یقینا پذیرائی بخشے گی اور اسے مزید مہلت عطا کرتے ہوئے سودی نظام کو جاری و ساری رہنے دے گی۔ لیکن وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپلیٹ بنچ کے دونوں فیصلوں کا بیک وقت منسوخ کیا جانا عوام اور دینی حلقوں کے لئے باعث ِحیرت بنا۔ عوامی رائے کے مطابق نہ تو موجودہ بنچ کے فاضل ارکان میں سے کوئی جسٹس (ر) تنزیل الرحمن جیسے علمی مرتبے کا حامل تھا۔ اور نہ ہی موجودہ بنچ میں شامل علماء کرام یعنی ڈاکٹر خالد محمود اور علامہ رشید جالندھری سابقہ شریعت اپلیٹ بنچ کے علماء ارکان مولانا تقی عثمانی اور ڈاکٹر محمود غازی جیسی فقہی استعداد کے حامل تھے۔ عوامی حلقوں کے ردّعمل کو چھوڑتے ہوئے، اختصار کے نقطہ نظر سے ذیل میں سپریم کورٹ کے سابق جج مسٹر جسٹس وجیہ الدین احمد کے ایک انٹرویو کے کچھ اقتباسات یہاں درج کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ یہ انٹرویو ہفت روزہ ’تکبیر‘ ۴ تا ۱۰/ جولائی ۲۰۰۲ء کے شمارے میں شامل اشاعت ہے۔ یاد رہے کہ جسٹس وجیہ الدین احمد اس شریعت اپلیٹ بنچ میں بطورِ جج شامل تھے جس نے دسمبر ۱۹۹۹ء میں سود کو حرام قرار دیتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی توثیق کی تھی۔