کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 13
آخر میں حشمت علی حبیب ایڈووکیٹ نے بھی عدالت سے مختصر خطاب کیا اور محمد اسماعیل قریشی کے دلائل ، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اور شریعت اپلیٹ بنچ کے ۱۹۹۹ء کے فیصلے کی حمایت کی اور ان کے خلاف نظرثانی کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کی۔ وکلا اور دیگر حضرات کے دلائل سماعت کرنے کے فوراً بعد نظرثانی کے لئے تشکیل کردہ بنچ نے ۲۴/جون ۲۰۰۲ کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے شریعت اپلیٹ بنچ کا فیصلہ مؤرخہ ۲۳/ دسمبر ۱۹۹۹ء اور وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ مؤرخہ ۱۴/ نومبر ۱۹۹۱ء منسوخ کردیا اور مقدمہ کو از سر نو سماعت کے لئے دوبارہ وفاقی شرعی عدالت میں بھیجنے کے احکامات صادر کردیے تاکہ وہ اٹھائے گئے سوالات کی روشنی میں پورے معاملے کو از سر نو دیکھے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فریقین اس عدالت میں اُٹھائے گئے نکات کے علاوہ اس موضوع سے متعلقہ دیگر اور نئے سوالات بھی وفاقی شرعی عدالت کے سامنے اُٹھا سکتے ہیں جبکہ وفاقی شرعی عدالت ازخود بھی اپنی دانست کے مطابق سوالات اُٹھا سکتی ہے۔ نظرثانی کرنے والی عدالت نے اپنے مذکورہ بالا فیصلے کی بنیاد جن معروضات پر رکھی، وہ مختصراً حسب ذیل ہیں : 1. وفاقی شرعی عدالت نے سود کی پابندی کی حد تک غیرمسلموں کے معاملے کو بالکل چھوا تک نہیں تھا۔ لیکن شریعت اپلیٹ بنچ نے نہ صرف یہ کہ اس ایشو پر بحث کی بلکہ امتناعِ سود کے قانون کو غیر مسلموں پر بھی لاگو کردیا۔ 2. اسلام میں قرض کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ وہ رقم ہے جواللہ کے نام پر صدقہ یا خیرات کی شکل میں دی جاتی ہے جبکہ موجودہ بینکنگ سسٹم کے ’لون‘ ا س سے بالکل مختلف ہیں اور حکومت کی مختلف سکیموں میں لگایا جانے والا سرمایہ بھی قرض کی سابق الذکر تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ کیونکہ اس میں ’ظلم‘ کا عنصر شامل نہیں ہوتا۔ 3. یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر موجودہ بینکنگ سسٹم کو ختم کرکے متبادل نظام لایا گیا تو پورے ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔ ایک اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائے جن سے لوگوں کی بھلائی کا پہلو نکلتا ہو اور عوامی مفادات کی حفاظت ہوتی ہو۔ نہ کہ ملک میں افراتفری ،بے یقینی اور انارکی پھیل جائے۔ 4. مسٹر خالد اسحق ایڈووکیٹ نے وفاقی شرعی عدالت میں کہا تھا کہ (i) افراطِ زر (Inflation) کے بارے میں فقہی آرا موجود ہیں کہ افراطِ زر کے مطابق بڑھوتری