کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 12
کیا ہے؛ جبکہ یہ آرا اپنی ابتدا ہی سے متنازعہ چلی آرہی ہیں ۔ محمد اسماعیل قریشی نے وضاحت کی کہ جس طرح فاضل وکیل ریا ض الحسن گیلانی نے ربوٰ کو مکروہ قرار دے کر حرام اور ممنوع کے دائرے سے نکالنے کی کوشش کی ہے، وہ اسلامی اصول فقہ کی روشنی میں درست نہیں ہے۔ دراصل مکروہ کی تین اقسام ہیں : ایک وہ اشیا ہیں جنہیں قرآن نے مکروہ قرار دیا ہے۔ دوسرے جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکروہ قرار دیا ہے اور تیسرے وہ جنہیں پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ مکروہ کی پہلی دونوں اقسام اسلامی فقہ میں حرام ہی سمجھی جاتی ہیں ۔ جبکہ تیسری قسم اگر کوئی چاہے تو ناپسندیدگی سے اختیار کرسکتا ہے جبکہ سود کا معاملہ قطعاً اس تیسری قسم میں نہیں آتا۔ اسماعیل قریشی نے مزید کہا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی جس روایت کی بنیاد پر سود کو مکروہ فعل قرار دیا جارہا ہے اور اسے ممانعت (حرام)کے دائرے سے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے، اسے پورے سیاق و سباق کے ساتھ عدالت کے سامنے پیش نہیں کیاگیا۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے واضح الفاظ میں وضاحت کی ہے کہ مکروہ سے ان کی مراد حرام (ممنوع) ہی ہے۔ محمد اسمٰعیل قریشی کی معاونت چوہدری عبدالرحمن ایڈووکیٹ (ماہر قانون اسلامی) نے کی۔ محمد اسماعیل قریشی کو دلائل کے دوران عدالت کی جانب سے بار بار مداخلت کا سامنا کرنا پڑا۔ محمد اسماعیل قریشی نے اپنے دلائل میں کہا کہ شریعت اپلیٹ بنچ سپریم کورٹ نے بڑے بڑے علما کرام اور بنکاروں کو سن کر فیصلہ دیا تھا۔ اب محض دو بیوروکریٹس کے بیاناتِ حلفی کی بنیاد پر نظرثانی کی جارہی ہے جوقرآن کے معنی نہیں سمجھتے بلکہ دنیاوی انداز میں اسلامی احکامات کی تشریح کرتے ہیں ۔ محمد اسماعیل قریشی نے دلائل سمیٹتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے جس میں قرآن وسنت سپریم لاء ہے اور ان پر عمل درآمد اور ان کے احکامات کا نفاذ لازم ہے۔ قرآن و سنت سے متصادم قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا کسی فرد کی نہیں بلکہ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جماعت ِاسلامی کے وکیل جسٹس (ر) خضر حیات نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی اپنی کتاب میں اس دلیل کو ردّ کرتے ہیں کہ کرنسی نوٹ کی ویلیو کم ہونے کی وجہ سے بڑھوتری وصول کی جاسکتی ہے۔ شیخ خضر حیات نے کہا کہ مکروہ کی تعریف کو صحیح طور پر بیان نہیں کیا گیا ہے۔ جمعیت علمائے پاکستان(نفاذِ شریعت گروپ) کے صدر انجینئر سلیم اللہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پرجزوی عمل ہوچکا ہے، اب اس پر نظرثانی کی قانون اجازت نہیں دیتا۔ اس کے برعکس نظرثانی کی درخواست میں حکومت نے عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کروانے کے بعد یوٹرن لے لیا ہے، اس لئے حکومت کا اقدام توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔