کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 11
4۔ ڈاکٹر ریاض الحسن گیلانی کے بعد اٹارنی جنرل پاکستان مخدوم علی خان نے عدالت کے سامنے اپنی معروضات پیش کیں ۔ انہوں نے سابقہ فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپلیٹ بنچ نے مقدما ت کی سماعت کرتے ہوئے آئین پاکستان کے آرٹیکل 81(c),38(f), 30(2), 29 اور 121(c) میں بیان کئے گئے ضوابط کے مطابق، نہ تو اپنے اختیارِ سماعت کاخیال رکھا اور نہ ہی یہ دیکھا کہ وفاقی شرعی عدالت یا شریعت اپلیٹ بنچ کے سامنے یہ مقدمات دائر بھی کئے جاسکتے تھے یا نہیں ؟ آئین کے آرٹیکلز ۱۶۱ اور ۲۶۰ میں سود کا ذکر موجو دہے۔ لیکن نہ تو وفاقی شرعی عدالت نے اور نہ ہی شریعت اپلیٹ بنچ نے اس امر کا ادراک کیا کہ انہیں آئین کے بارے میں اختیارِ سماعت حاصل نہیں ہے۔ شریعت اپلیٹ بنچ نے آئینی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بجائے ’کنسالی ڈیٹڈ فنڈ‘ (Consolidated Fund)کے چند ضوابط کو خلافِ اسلام قرار دینے پر اکتفا کیا۔اس کے ساتھ ہی حکومتی وکلا کے دلائل اختتام پذیر ہوئے۔
دوسری طرف سے سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ محمد اسمٰعیل قریشی نے بحث کا آغاز کیا۔ محمد اسماعیل قریشی نے سب سے پہلے اس مقدمے کی سماعت کرنے والے چیف جسٹس شیخ ریاض احمد اور دیگر ممبران پر مشتمل بنچ کی تشکیل پر اعتراض کرتے ہوئے نکتہ اٹھایا کہ یہ بنچ آئین کے ضوابط کے مطابق نہیں بنایا گیاہے۔ دوسرے یہ کہ ڈاکٹر خالد محمود اور جناب ڈاکٹر رشید جالندھری جو کہ بطورِ علما جج بنچ میں شامل کئے گئے ہیں ، وہ بطورِ عالم دین، وہ مہارت نہیں رکھتے جو کہ اس عہدہ کے لئے درکار ہے۔ اس لئے عدالت کو نظرثانی کی درخواست سماعت کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
محمد اسماعیل قریشی نے کہا کہ نظرثانی کے معاملے میں عدالت کے اختیارات بہت محدود ہوتے ہیں اور جن قوانین، ضوابط اور حقائق کا جائزہ فیصلہ دینے والی عدالت عظمیٰ تفصیل سے لے چکی ہو، انہیں نظرثانی کے پردے میں دوبارہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ حکومت اور یونائٹیڈ بنک نے قرآن اور سنت سے حاصل کردہ جن حوالوں کو نظرثانی کی بنیاد بنایا ہے، ان سب پر تفصیل سے بحث، سماعت کرنے کے بعد ہی سابقہ فیصلے صادر کئے گئے تھے۔ اس لئے انہی سوالات اور نکات کو مکرر بنیاد بناکر پورے مقدمے اور ایشوز کی ازسر نو سماعت نہیں کی جاسکتی۔ اسماعیل قریشی نے موقف اختیار کیا کہ نظرثانی کے حامی وکلا نے جس طرح قرآن اور سنت کی تفسیر کرنے کی کوشش کی ہے، وہ تفسیر قرآن و حدیث کے اجتماعی طو پر تسلیم شدہ اصولوں پر پوری نہیں اُترتی۔ دراصل ان وکلا نے ۱۴۰۰ سال سے تسلسل کے ساتھ دی جانے والی علما اور فقہا کی اجماعی آرا کی نفی کرنے کے لئے، ان سے اختلاف کرنے والے محض دورِ جدید کے چند سکالرز کی شاذ رائے پراکتفا