کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 10
رہا ہے، اس پر اتفاقِ رائے نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض ممتاز فقہا مثلا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس کے سختی سے مخالف ہیں ۔
۱۴) عدالت لفظ ’قرض‘کی درست تشریح کرنے میں ناکام رہی ہے اور صرف اس وجہ سے بھی پورے متنازعہ فیصلے کا رنگ شریعت کے خلاف ہوگیا ہے۔ انگریزی زبان کا لفظ ’Loan‘ وہ معنی نہیں رکھتا جو لفظ ’قرض‘ سے مراد لئے جاتے ہیں ۔
۱۵) عدالت نے متبادل اقتصادی نظام تجویز کرتے ہوئے جعفریہ مکتب ِفکر بالخصوص محمد باقر الصدر جیسے فقہ جعفریہ کے سکالر کے نظریات کونظر انداز کردیا ہے۔ اور بہت سے دیگر فقہا مثلا عبدالوہاب خلاف (Khallaf) اور ڈاکٹر معروف الدوالیبی کے نظریات کو پڑھنے اور سمجھنے میں غلطی کی ہے۔
۱۶) سود کی ممانعت کے اسلامی قانون کو غیر مسلموں پر بھی لاگو کردیا گیا ہے جو کہ بذاتِ خود قرآن اور سنت کے خلاف ہے۔ اسی طرح فقہ جعفریہ کو بھی پامال کیا گیا ہے۔ سود کا نفاذ اگر جائز بھی قرار دیا جائے تو صرف پرسنل لاء کی حد تک تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
۱۷) فیصلے میں انڈیکسیشن کو قرآنِ حکیم یا سنت ِرسول سے کوئی حوالہ دیے بغیر غیراسلامی قرار دے دیا گیا ہے اور اس امر پر فیصلہ کرتے ہوئے سید محمد باقر الصدر، اعلیٰ حضرت احمدرضا خان بریلوی، شیخ الازہر ڈاکٹر سید طنطاوی کی آرا کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
۱۸) ’ظلم‘ کا عنصر سود کے معاملے میں ، ایک ضروری ’علت‘ ہے۔ فیصلے میں غلط طور پر قرار دیا گیا ہے کہ ’ظلم‘ سود کے معاملے میں ’علت‘ نہیں بلکہ ’حکمت‘ ہے۔ اس طرح براہِ راست قرآنِ حکیم کے علاوہ امام ابن رشد اور مولانا اشرف علی تھانوی کی فقہی آرا کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
۱۹) صرف پہلے سے طے شدہ شرح منافع کی بنیاد پر کسی لین دین کو سود کے زمرے میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔ ’ہدایہ‘ میں درج ہے اور مولانا اشرف علی تھانوی کی رائے بھی یہی ہے کہ پہلے سے طے شدہ منافع، کاروبار میں مضاربہ کی ایک خاصیت ہے۔ فیصلے میں کارپوریٹ بزنس کے حوالے سے اس نقطہ نظر کا نوٹس نہیں لیا گیا۔
۲۰) وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپلیٹ بنچ کے فیصلوں میں بہت سی دیگر خرابیاں اور کمیاں ہیں اور ایسے بہت سے سوالات جن کا سود کی حرمت کے معاملے اور فیصلے پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے، ان پر بحث نہیں کی گئی ہے۔ ریاض الحسن گیلانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ خود انہوں نے عدالت کے سامنے ۳۳ سوالات رکھے تھے جن پر شریعت اپلیٹ بنچ نے غور نہیں کیا۔