کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 7
یہ قیادت اپنے لبرل اور ترقی پسند ہونے کے ساتھ ساتھ جدید دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کی دعویدار بھی ہے۔ لہٰذا اس سنہری موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے نادیدہ قوتیں سیکولر عناصر کو حکومتی ڈھانچے میں داخل کرنے اور سیکولر فلسفے کو مقبولِ عام بنانے کے لئے سرگرمِ عمل ہوچکی ہیں ۔ بہت سے حکومتی اقدامات سے سیکولر طاقتوں کے اثر نفوذ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے تو توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کرکے ایف آئی آر درج کروانے اور تفتیش کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا گیا اگر زبردست عوامی ردّعمل سامنے نہ آتا تو یہ اعلان موٴثر قانون کی صورت اختیار کرلیتا۔
ابھی حال ہی میں حکومت نے ووٹر فارم سے مذہب کا خانہ جس میں قادیانیت کے بارے میں اقرار یا انکار بھی شامل تھا، ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ لیکن تمام مذہبی جماعتوں ، علمائے کرام اور اسلام پسند سیاست دانوں کے پرزور احتجاج اور جون کے مہینے سے سڑکوں پر تحریک کے اعلان پر حکومت نے یہ حکم نامہ واپس لے لیا۔ اور ووٹر فارم پر مذہب کے اعلان سے متعلق خانہ حسب ِسابق بحال کرنے پر مجبور ہوگئی۔ لیکن معاملات جس انداز میں چلائے جارہے ہیں ۔ ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ انہی اقدامات کو کسی دوسرے انداز میں دوبارہ موٴثر بنانے کی کوششیں بھی درپردہ جاری و ساری ہیں ۔
مئی کے مہینے میں ’پاکستان لاء کمیشن‘ کا اجلاس منعقد ہوا۔ جس کی صدارت چیف جسٹس آف پاکستان نے کی۔ اس اجلا س میں مسلم فیملی لاز میں تبدیلیوں کی سفارش کی گئی۔ حدود آرڈیننس کا ازسرنو جائزہ لینے اور اس میں ترمیمات تجویز کرنے کے لئے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس کے اکثر ارکان اِلحاد و تجدد کے علمبردار یا اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے والے ہیں ۔
دوسری طرف بنکوں کی جانب سے سود کو حرام قرار دیئے جانے والے تاریخی فیصلے پر نظرثانی کے لئے سپریم کورٹ اپلیٹ بنچ میں درخواست دائر کروائی گئی ہے۔ جس کی سماعت جون کے دوسرے ہفتے سے شروع ہونے والی ہے۔ اسی دوران حکومت نے سود کو حرام قرار دینے والا فیصلہ تحریر کرنے والے جسٹس مولانا تقی عثمانی کو ان کے عہدے سے بغیر کوئی وجہ بتائے فارغ کردیا ہے اور بنچ کے لئے دو نئے علما ججوں جناب خالد محمود اور جناب رشید احمد جالندھری کو مقرر کردیا گیا ہے۔ ان دونوں حضرات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک صاحب کا میدانِ مطالعہ چند فرقہ وارانہ مسائل تک محدود ہے یعنی وہ اجتماعی مسائل حیات میں کسی اسلامی تخصص کے حامل نہیں ہیں جبکہ دوسرے صاحب سیکولر بلکہ سوشلسٹ نقطہ نظر کی پذیرائی کرتے رہتے ہیں ۔ ان دوسرے صاحب نے جج کا حلف لینے کے بعد ایک اخباری بیان میں بظاہر