کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 6
میں اپنی افواج، ماہرین اور جاسوس ایجنسیوں کے آدمی داخل کرنا تاکہ ان کی عسکری تیاریوں اور حریت پسندی کی ’شدت‘ پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ( جیسا کہ آج کل پاکستان کے معاملے میں ہورہا ہے) ۶) مسلمان ممالک اور ان کے دوست ممالک کے باہمی رشتہ اُخوت اور جذبہ تعاون کو کمزور کرنا۔ مسلم ریاستوں کے باہمی فروعی اختلافات کو ہوا دے کر اور ان کے دوست ممالک میں غلط فہمیاں پھیلا کر یہ مشن پورا کیا جارہا ہے۔ (پاکستان سے چین اور ایران کے تعلقات کی حالیہ سطح ا س کی ایک مثال ہے) ۷) جہادی تنظیموں کو جڑ سے اکھیڑنا۔ ۸) دینی مدرسوں اور دوسرے مذہبی اداروں کے نصاب اور سرگرمیوں کو مانیٹر کرنا اور ان میں ’حق پسندی‘ کا عنصر ختم کروانے کے لئے سخت اقدامات کرنا۔ (دینی مدرسوں میں امریکی سفیروں اور اعلیٰ عہدیداروں کے دورے اسی سلسلے کی ایک مطالعاتی کڑی ہیں ) ۹) اسلامی ممالک میں خالص دینی جماعتوں کے اقتدار اور نظامِ حکومت کو قرآنی احکامات کے مطابق چلانے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا۔(جیسا کہ پاکستان میں قانونِ توہین رسالت، حدود قوانین، حرمت ِسود کے قانون اور وفاقی شرعی عدالت کو ختم کرنے کے لئے مغربی سرمائے سے چلنے والی این جی اوز سے کام لیاجارہا ہے) ۱۰) اسلامی ممالک میں دینی نظام کے برعکس سیکولر نظام لانے والی قیادتوں کو اُبھارنا، جو ایک ’فرسودہ اسلام‘ کے بجائے ایک ’روشن خیال اور جدیدیت کے حامل ترقی پسند اسلام‘ کو فروغ دے سکیں ۔ ۱۱) ایسے علماے دین کو منظر سے ہٹانا جو روحِ قرآنی اور تعلیمات سیرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دل نشین اندازمیں عوام الناس تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور ایک فکری انقلاب کی طاقت سے لادینیت کا راستہ روک سکتے ہوں ۔ پاکستان چونکہ واحد مسلمان ایٹمی طاقت ہے اور امت ِمسلمہ کے اتحاد کا علمبردار بھی ہے، اس کے علاوہ اپنے آئین اور قیام کے حوالے سے ملک کے اندر اسلامی نظام رائج کرنے کا پابند بھی ہے۔ اس لئے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی پاکستان میں مذکورہ بالا تمام حربوں کوبیک وقت آزما رہے ہیں ۔ ان حالات میں مقصد براری کے لئے غیر جمہوری حکومتیں ہمیشہ ممدومعاون ثابت ہو تی ہیں ۔ وطن عزیز میں بھی اس وقت ایک غیر جمہوری قیادت برسراقتدار ہے اور مغربی دنیا کے نظریات کے عین مطابق