کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 51
(۱)پہلی شرط: یہ ہے کہ اس سے تلفظ کی ادائیگی اور تجوید کے قواعد متاثر نہ ہوں ۔ اگر آواز میں ترنم پیدا کرنے کی وجہ سے تلفظ کے احکام اور تجوید و قراء ت کے قواعد خلل اندازہوتے ہیں تواس صورت میں قانونِ نغمہ (قواعد ِموسیقی) سے مدد لینا حرام ( ہے۔ (۲) دوسری شرط : یہ ہے کہ قرآن کو ترنم اور تنغیم (قواعد ِموسیقی) کے تحت پڑھتے ہوئے ایسا لب ولہجہ اختیار نہ کیا جائے جو قرآن کی عظمت و وقار اور خشوع و خضوع کے منافی ہو، کیونکہ بعض لہجے ایسے ہوتے ہیں جو قرآن کریم کے شایانِ شان نہیں ہیں ۔مثال کے طور پر وہ لہجہ جس میں راگنی ہو۔ ایسا لہجہ نہ دل میں خشوع و خضوع پیدا کرتا ہے اور نہ ہی قرآن سے نصیحت حاصل کرنے پر برانگیختہ کرتا ہے،بلکہ یہ ایک طرح کا سامانِ تفریح اور قرآنِ کریم کے ساتھ مذاق ہے جو اس کے مقام و مرتبہ سے قطعاً مناسبت نہیں رکھتا۔ قرآن کو رقت اور سوز سے تلاوت کرنا : بعض لہجے ایسے ہیں جن میں سوز اور خشوع و خضوع ہوتا ہے، ایسے لہجے واقعی قرآن کے شایان شان ہیں جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِيْنَ آمَنُوْا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِکْرِ اللّٰهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ﴾ (الحدید: ۶ ۱) ”جو لوگ ایمان لائے ہیں کیا ان کے لئے وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر سے اور جو حق نازل ہوا ہے، اس سے ان کے دل پسیج جائیں ؟“اسی طرح فرمایا : ﴿لَوْأَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْآنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَأيْتَه خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ وَتِلْکَ الأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَکَّرُوْنَ﴾ (الحشر:۲۱) ”اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ
[1] ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ قرآن کوالحان کے ساتھ پڑھنے کے بارے میں علما ء کے اختلاف کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ اختلاف اس صورت میں ہے جب مخارج ِحروف میں کوئی فرق نہ پڑے۔اگر اس سے حروف کے مخارج متاثر ہوتے ہیں تو اس صورت میں امام نووی اپنی کتاب ’التبیان‘ میں فرماتے ہیں کہ علما کا اس کی حرمت پر اجماع ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں : ’’علماء کرام فرماتے ہیں کہ قراء ت میں آواز کو خوبصورت بنانا اور اس میں ترنم پیدا کرنا مستحب ہے بشرطیکہ قاری قواعد تجوید کی پوری پوری پابندی کرے۔ لیکن اگر الحان کے ساتھ پڑھتے ہوئے کھینچ کر پڑھنے سے کسی حرف کو زیادہ بڑھا دیا یا کسی حرف کو مخفی کردیا (یعنی لحن جلی کا ارتکاب کیا ) تو اس طرح الحان کے ساتھ پڑھنا حرام ہے۔‘‘ الحان (لب و لہجہ، ترنم) کے ساتھ قراء ت کرنے کے بارے میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ایک جگہ تو اسے مکروہ قرار دیتے ہیں اور دوسری جگہ کہتے ہیں کہ میں اسے مکروہ نہیں سمجھتا۔چنانچہ اصحاب ِشافعی اس تضاد کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان دونوں اقوال میں قدرے تفصیل ہے ، وہ یہ کہ ’’اگر قاری لفظ کو کھینچتے ہوئے اس قدر افراط سے کام لے کہ حد سے تجاوز کرجائے تو ایسا کرنا امام شافعی کے نزدیک مکروہ ہے، لیکن اگر وہ لفظ کو کھینچنے میں حد ِاعتدال سے تجاوز نہیں کرتا تو تب ان کے نزدیک ایسا کرنا مکروہ نہیں ہے۔‘‘