کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 49
لحن (طرز) نغمات اورلہجات ِاصوات کی مختلف انواع و اقسام میں سے ایک قسم ہے ۔ یہی ہماری بحث کا موضوع ہے کہ جب ایک قاری، قرآنِ کریم کو ترنم سے پڑھتا ہے تو کیا اس کے لئے قانونِ نغمہ سے مدد لینا اوران لہجوں کو استعمال کرنا جائز ہے ؟… اس ساری بحث کا دارومدار حذیفہ بن یمان رحمۃ اللہ علیہ کی اس روایت پر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”إقرء وا القرآن بلحون العرب وأصواتها، وإياکم ولحون أهل الفسق … الخ ‘‘
”قرآن کو عربوں کے لہجوں اور انہی کی آواز میں پڑھو اور اہل فسق اور اہل کتاب کے لہجوں سے بچو۔“میرے بعد کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو گویوں اور ماتم کرنے والوں کی طرح قرآن کو گا گا کر پڑھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔ ان گویوں اور ان کی گائیکی سے متاثر ہونے والوں کے دل فتنوں سے لبریز ہوں گے۔“( مختصرقیام اللیل از محمد بن نصر المروزی ص : ۵۸، طبرانی فی الاوسط، مجمع الزوائد : ۷/۱۶۹،بیہقی فی شعب الایمان:۵/۵۸۰) (
اس حدیث میں قرآنِ کریم کو عرب کے لہجوں اور ان کی آواز میں پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور شیطانی اور فحش قسم کے گانے گانے والے فاسق و فاجر گلوکاروں اور عیسائی چرچوں کے راہبوں اور نوحہ گروں کے لہجوں میں قرآن کو پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس ممنوعیت میں تلاوتِ قرآن کے وہ لہجے بھی داخل ہیں جو روافض یومِ عاشورا کے موقع پر دورانِ ماتم اختیار کرتے ہیں کیونکہ ان میں حرمت کی دو وجوہات پائی جاتی ہیں : ایک ان کاعجمی ہونا اور دوسرا یہ کہ یہ ماتم کرنے والوں کے لہجے ہیں ۔اور حدیث میں ان دونوں قسم کے لہجوں میں قرآن پڑھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کو مختلف الحان اورطرزوں میں پڑھنا مطلق حرام نہیں ہے بلکہ بعض طرزوں میں پڑھنے سے روکا گیاہے اور بعض طرزوں میں پڑھنے کا حکم دیا گیاہے۔ چنانچہ اہل عرب کی آواز اور لہجوں میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔لیکن عجمیوں ، اہل کلیسا اور فاجر گلوکاروں کے لہجوں اور ان کی آواز میں پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔
[1] یہ تمام روایات بقیہ کے طریق سے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ
حدثنی حصین بن مالک قال: سمعت شیخا یکنی أبا محمد یحدث عن حذیفۃ
امام فسوی رحمۃ اللہ علیہ المعرفۃ والتاریخ:۲/۴۸۰ میں بقیہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ اہل افریقہ میں سے ہے۔ اور اس سے صرف ایک حدیث مروی ہے۔امام ذہبی ’میزان‘ (۱/۵۳۳) میں ’حصین بن مالک‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے روایت کرنے میں ’بقیہ‘ منفرد ہے جو ناقابل اعتبار راوی ہے لہٰذا یہ خبر ’منکر‘ ہے۔ اس کے منکر ہونے کی حقیقی وجہ یہ نہیں بلکہ اصل وجہ ابو محمد کا مجہول ہونا ہے ۔اس کے باوجود اس حدیث کا متن قابل اعتبار ہے کیونکہ متعدد روایات اسکے ثبوت پر شاہدہیں ۔