کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 48
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کے لئے اپنی آواز کو خوبصورت بنانے کے لئے ایک حد تک تکلف جائز ہے خواہ وہ شخص فطری طور پر خوش آواز ہو یا نہ ہو، وہ اپنی آواز کو خوبصورت بنانے اور اس میں ترنم پیدا کرنے کے لئے ایک حد تک تکلف کرسکتا ہے۔ اس کی دلیل حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہنا ہے : لو علمت أنک تسمع قراء تی لحبرتها تحبيرا ” اگر مجھے علم ہوتا کہ آپ میری قراء ت سن رہے ہیں تو میں مزید خوش الحانی سے پڑھتا۔“ تحبیر سے مراد کسی چیز کو مزین کرنا، اس میں حسن و جمال پیدا کرناہے ۔لہٰذا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی بات کا مطلب یہاں یہ ہوگا کہ میں اپنی آواز کو اور زیادہ خوبصورت بناتا اور اپنی قراء ت میں ترنم پیداکرتا۔ اورظاہر ہے کہ کوشش اور تکلف کے بغیرایسا کرنا ممکن نہ تھا، کیونکہ یہ حسن اس سے زائد ہے جو اللہ نے ان کو طبعی طور پر عطا فرمایا تھا۔ قرآن کو مختلف لہجوں اور طرزوں سے پڑھنا ’لحن‘ کا لغوی معنی گانا اور غنا ہے۔ اس کی جمع ’الحان‘ ہے۔ اصطلاحی لحاظ سے اس سے مراد مختلف انواع واقسام کی وہ آوازیں ہیں جو غنا کے وقت نکلتی ہیں ۔گویا غنا کے وقت نکلنے والی آوازوں کی مختلف انواع واقسام کو نغمات اور الحان کہا جاتا ہے۔ہرلحن کا ایک اصطلاحی نام ہے، ان تمام الحان کے مجموعہ کو قانون النغم (قواعد ِموسیقی) کا نام دیا گیا ہے۔ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اورامام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے یہی نام دیا ہے ۔ (فتح الباری : ۹/۷۲، لطائف الاشارات ۱/۲۱۷) اس قانون کے تحت آوازوں کی مختلف اقسام ، الحان اور نغمات کی مختلف طرزوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ جیسا کہ علم عروض کے ذریعے شعر کے مختلف اوزان مرتب کئے جاتے ہیں ۔ جس طرح شعر فاسق اور بے حیا شاعروں کے لئے ہی مخصوص نہیں ،ا سی طرح قانونِ نغمگی (قواعد ِموسیقی) پر بھی صرف موسیقاروں اور فحش قسم کے گانے گانے والوں ( گلوکاروں ) کی اجارہ داری نہیں ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : ”حضرت داود علیہ السلام ستر (۷۰) لہجوں (طرزوں ) کے ساتھ زبور پڑھتے تھے اور ان کی قراء ت میں ایسا سوز تھا کہ شدید بخار میں مبتلا شخص بھی جھوم جھوم جاتاتھا اور جب وہ زبور پڑھتے ہوئے روتے تو خشکی اور تری پربسنے والاکوئی بھی ذی نفس ایسا نہ تھا جو خاموشی اور نہایت توجہ سے آپ کی قراء ت کو سنتا اور روتا نہ ہو۔“ (فتح الباری: ۹/۷۲) ستر طرزوں میں زبور پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ہر طرز دوسری سے مختلف اورجدا ہوتی تھی۔