کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 47
چنانچہ ثابت یہ ہوا کہ سواری کے ہچکولوں کی وجہ سے جو آواز پیدا ہوتی ہے، اسے ترجیع قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ حدیث میں ترجیع سے مرادقرآن کو ترنم اور خوش الحانی سے پڑھنا ہے،کیونکہ خود راوی کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ ہجوم کی صورت میں جمع ہوجائیں گے تو میں بھی قرآن کو اسی طرز میں پڑھتا جس طرز میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا تھا۔
اس کے علاوہ حضرت اُمّ ہانی رضی اللہ عنہا سے ایک روایت بھی اسی پر دلالت کرتی ہے کہ نبی قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے اور میں اپنے بستر پر لیٹی آپ کی آواز کو سن رہی تھی اور آپ قرآن میں ترجیع کر رہے تھے یعنی اسے خوش الحانی اور خوش آوازی سے پڑھ رہے تھے۔ (معانی الآثار از طحاوی :۱/۳۴۴)
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول اگر یہ ترجیع اونٹی کے ہچکولوں کی وجہ سے تھی تو بتائیے کہ اُمّ ہانی رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں ترجیع کی وہ کیا توجیہ کریں گے؟
قرآن کو خوش الحانی سے تلاوت کرنے کی حکمت
جو لوگ قرآن کو خوش الحانی سے پڑھنے کی ’سنت‘ سے بھاگتے ہیں اور اس سلسلے میں وارد نصوص کے بارے میں عجیب وغریب تاویلات کرتے ہیں ، وہ دراصل اس اہم حکمت و علت سے واقف نہیں ہیں جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے اس سنت کو مشروع قرار دیا ہے ۔ وہ حکمت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مزمار الشیطان کو حرام قرار دیا تو اس کے بدلے میں مزامیر قرآن یعنی قرآن کو خوش الحانی اور ترنم سے پڑھنے کو مشرو ع اور جائز قرار دینا ضروری تھا تاکہ انسان مزمارِ شیطان سے کنارہ کش ہوکر مزامیر قرآن کی طرف توجہ کرے،کیونکہ انسانی نفس فطری اور طبعی طور پر غنا اور خوبصورت آوازوں کو سننے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ ابن اعرابی رحمۃ اللہ علیہ (ابو عبد اللہ محمد بن زیاد لغوی، م ۲۳۱ھ) فرماتے ہیں کہ
”اہل عرب اپنے اونٹوں پر سوار ہوتے یا اپنے گھروں کے لان میں بیٹھتے تو گانے کی محفلیں جماتے۔ جب قرآن نازل ہواتو آپ نے چاہا کہ ان کی گانے بجانے کی عادت کو قراء تِ قرآن سے بدل دیا جائے۔“ (لطائف الاشارات ازقسطلانی: ۱/۲۱۳، فتح الباری :۲/۷۰)
کسی کو اگر اللہ نے فطری طور پر خوبصورت آواز سے نوازا ہے تو اس کے لئے قرآن کو خوش الحانی سے پڑھنا بہت آسان ہوگا اور جو شخص طبعاًخوش آواز نہیں ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو،مسلسل مشق اور ٹریننگ سے اپنی آواز کوخوبصورت بنانے کی کوشش کرے۔چنانچہ ابن ابی ملیکہ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک شخص طبعی طور پر خوش آواز نہیں تو وہ کیا کرے؟ تو انہوں نے فرمایا:
”جہاں تک ہوسکے، آواز میں حسن پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ “