کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 46
اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ،جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔
تلاوتِ قرآن میں ’ترجیع ‘
(۹) اور دوسری دلیل حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کو (فتح مکہ کے روز) دیکھاکہ آپ اپنی اونٹنی (یا اونٹ) پر سوار تھے ، اونٹنی محو ِسفرتھی اور آپ اوپر بیٹھے نہایت نرمی سے سورۂ فتح (یا اس میں سے بعض آیات کی )تلاوت فرما رہے تھے اور آوازکو بار بار دہراتے تھے(خوبصورتی پیدا کرنے کے لئیآواز میں اتار چڑھاوٴ پیدا کرتے)۔ (بخاری : فضائل القرآن، باب الترجیع … فتح الباری: ۹/۹۲ )
شعبہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے قراء ت کی اور اس میں عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی نقل کی اور پھر کہا: اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ تم پر جمع ہوکر ہجوم کردیں گے تومیں اس طرح آواز کو دہرا دہرا کر قراء ت کرتا،جیسے عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں آواز دہرا دہرا کر تلاوت کی تھی۔ شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ سے پوچھا: ابن مغفل رضی اللہ عنہ کیسے آواز کو دہراتے تھے؟ تو انہوں نے کہا :آ، آ،آ، تین بار مد کے ساتھ۔(صحیح بخاری۷۵۴۰)
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’تذکار‘ کے صفحہ ۱۲۰ پر فرماتے ہیں کہ
” اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ شائد راوی نے سواری کے ہچکولے کھانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو آواز پیدا ہوئی ،اس کو نقل کیا ہو جس طرح کہ ایک آدمی جب سواری پر بیٹھ کر اونچی آواز نکالتا ہے تو اس کی آواز میں کبھی دباؤ اور کبھی انقطاع پیداہوتاہے ،یعنی آواز کبھی اونچی ہوتی ہے اور کبھی پست۔ چنانچہ اس احتمال کی موجودگی میں اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔“
میں کہتا ہوں تعجب ہے ان لوگوں پر جو اس قسم کے احتمالات کا تکلف کرتے ہیں ۔ قرآن کو خوش الحانی اور ترنم سے پڑھنے کے بارے میں جب دیگربے شمار نصوص ہیں اور خودنبی کے عمل کے ہوتے ہوئے بھلا اس قسم کے احتمالات اور تو جیہات کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔
ترجیع کا مفہوم : ترجیع کے دو معانی ہیں ۔ ایک تو کسی چیز کو خوش الحانی اور ترنم سے پڑھنا۔ اور دوسرا معنی ہے، کسی چیز کو گویوں کی طرح گاکر اور سریں لگا کر پڑھنا۔ ترجیع کی اوّل الذکر صورت جائز اور مشروع ہے اور ثانی الذکر ناجائز ہے ۔ اس کی دلیل حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میرے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن کواس طرح گاکر اور سریں لگا کر پڑھیں گے جس طرح ایک گویا گانا گاتا ہے، یا ایک نوحہ خواں نوحہ کرتا ہے۔“
(العلل المتناہیة: ۱/۱۱۸)
ترجیع کی یہ صورت بلا شبہ حرام ہے اور اول الذکر ترجیع جائز اور مشروع ہے۔