کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 45
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی خوبصورت ، شیریں اور سریلی آواز کو بانسری سے تشبیہ دی گئی ہے۔ (النہایہ ازابن اثیر:۲/۳۱۲) اور آلِ داود سے مراد خود حضرت داود علیہ السلام مراد ہیں اور لفظ ’آل‘ زائد ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو شیریں آواز اور ادائیگی الفاظ میں حسن اور ترنم میں جمال کا وافر حصہ عطا فرمایاتھا،اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس حالت کو داؤد علیہ السلام کی حالت سے تشبیہ دی کیونکہ داؤد علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے غضب کی آواز عطا فرمائی تھی۔ ٭ جہاں تک ابو موسی ٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی آواز کی خوبصورتی کی بات ہے ، تو اس کا اندازہ ابن ابی داؤد کی اس روایت سے کیا جاسکتا ہے کہ ابی عثمان نہدی نے فرمایا کہ میں ایک روز ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے گھر آیا (وہ تلاوت کر رہے تھے) ان کی آواز میں ایسا حسن اورسوز تھا کہ میں نے ان کی آواز سے زیادہ خوبصورت آواز کبھی طبلہ، سارنگی اور بانسری کی بھی نہیں سنی۔(فضائل القرآن از ابن کثیر: ص۳۵ و طبقات ابن سعد: ۴/۱۰۸) ابوعبید رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو یوں بیان کیا ہے کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ہمیں نماز پڑھا رہے تھے ۔ اگر میں یہ کہوں کہ ان کی آواز کے سامنے طبلہ، سارنگی اور بانسری کی آواز بھی ہیچ تھی تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ ابوعبید نے اس روایت کو فضائل القرآن کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ (ق۱۷/نسخہ جرمنی) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس کی سند صحیح ہے۔(فتح الباری ۹ / ۹۳ و الحلیة از ابو نعیم:۱/۲۰۸) ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی خوش الحانی کا یہ عالم تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب انہیں دیکھتے تو کہتے : ”اے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ !ہمیں اپنے ربّ کی یاد دلایئے تو ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے۔“ (فضائل القرآن از ابن کثیر : ص۳۵) (۸) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام سالم رضی اللہ عنہ کی تعریف فرمائی جو قرآن کے بہترین قاری تھے ۔اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ” ایک بار نمازِ عشا کے بعد مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ جب میں آئی تو آپ نے فرمایا:عائشہ رضی اللہ عنہا ! کہاں تھی؟ میں نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے ایک صحابی کی قراء ت سن رہی تھی۔ میں نے آج تک ایسی پرکیف قراء ت اور پرسوز آواز کسی کی نہیں سنی۔ یہ سن کر آپ بھی اُٹھے اور نہایت توجہ سے سننے لگے۔میں بھی ساتھ کھڑی ہو گئی۔چند لمحے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام سالم رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اس اللہ کاشکر ہے جس نے اس جیسے لوگ میری امت میں پیدا فرمائے۔ “ (ابن ماجہ:۱/۴۲۵، فضائل القرآن از ابن کثیر: ص ۳۵) ( ھ ) پانچویں دلیل جس سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی ترجیح ثابت ہوتی ہے، یہ ہے کہ خود نبی کا عمل قرآن کوخوش الحانی اور ترنم سے پڑھنے کی مشروعیت پر دلالت کرتا ہے۔اس کی دلیل ایک تو جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ