کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 43
اسی طرح ابن ابی ملیکہ ،عبیداللہ بن ابی یزید سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز ابولبابہ رضی اللہ عنہ کا ہمارے پاس سے گزر ہوا ،ہم بھی ان کے ساتھ چل پڑے ۔ آخر ان کا گھر آگیا اور ہم ان کے ساتھ گھر میں داخل ہوگئے۔ دیکھا کہ ایک شکستہ حال آدمی بیٹھا کہہ رہا ہے کہ ”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ جو شخص قرآن کو خوش الحانی اور ترنم سے نہیں پڑھتا ،وہ ہمارے راستہ پر نہیں ہے۔“ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے پوچھا :اے ابو محمد! اگر کوئی آدمی خوش آواز نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ فرمایا: ”جہاں تک ہوسکے، خوش آواز ی سے پڑھنے کی کوشش کرے۔“ یہاں خود راوی نے لفظ یتغنی کی وضاحت کردی کہ اس سے مراد قرآن کو خوبصورت آواز سے پڑھنا ہے۔ (ابوداود:۲/۷۴)
کتب احادیث میں ایسی متعدد روایات ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کی تعریف کی اور انہیں ان کی حالت پر برقرار رکھا جنہیں اللہ نے خوبصورت آواز سے نوازا تھا اور وہ قرآن کو ترنم او رخوش الحانی سے پڑھتے تھے۔ان عام روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پیش نظر حدیث میں یتغنی سے مراد قرآن کو خوش الحانی سے پڑھنا ہی ہے۔
قرآن کریم کو خوش الحانی سے پڑھنا صحابہ کا بھی عمل تھا
(۵) ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہما بھی تھے جوقرآن کو بڑی خوش آوازی سے پڑھتے تھے۔ نبی نے ان سے کہا:عبداللہ رضی اللہ عنہ ! مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ تو انہوں نے کہا :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !بھلامیں آپ کو قرآن سناؤں ،آپ پر تو قرآن نازل ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں یہ چاہتا ہوں کہ کسی دوسرے سے قرآن سنوں ، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورة النساء پڑھنا شروع کی۔ جب وہ اس آیت پر پہنچے ﴿فَکَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی هٰؤلَاءِ شَهِيْدًا﴾ ”کیا حال ہوگا جب ہم ہر اُمت سے ایک گواہ لائیں گے، پھر ان پر (اے نبی) آپ کو گواہ بنائیں گے۔“ (النساء:۴۱) تو آپ نے فرمایا: بس کرو ابن مسعود رضی اللہ عنہ ! … ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔ (بخاری ۵۰۴۹،مسلم :۱۸۶۴)
اورایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا : جو شخص یہ پسند کرے کہ وہ قرآن کو اس شکل میں پڑھے جس شکل میں نازل ہوا تھا تو اسے چاہئے کہ اُم عبد کے بیٹے (عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ) کی قراء ت کے مطابق پڑھے۔ (ابن ماجہ فی المقدمہ:۱/۴۹، مسنداحمدتحقیق احمد شاکر:۱/۲۶۵)
’ابن اُمّ عبد‘ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا لقب تھا۔ وہ ایک خوش الحان اور ماہر قاریٴ قرآن تھے ۔ان کی تلاوت میں وہ سوز اور اثر تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر متاثر ہوئے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی