کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 42
( اسی طرح عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”قرآن کو سیکھو، خوش الحانی سے اس کی قراء ت کرو اور اس کو لکھو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، جس طرح اونٹ کا بچہ رسی سے چھوٹ جائے تو بھاگ کھڑا ہوتا ہے، اسی طرح اگر قرآن کو چھوڑ دیا جائے تو یہ اس سے بھی زیادہ تیزی سے انسان سے جدا ہوجاتا ہے۔“
(مصنف ابن ابی شیبہ، ’تذکار‘ ازقرطبی: ص۱۱۹)
حضرت سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا : اے بھتیجے!کیا تو نے قرآن پڑھا ہے؟ میں نے جواب دیا: ہاں ! میں نے قرآن پڑھا ہے تو فرمایا:
” قرآن کو خوش الحانی سے پڑھا کرو، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
قرآن کو خوش الحانی اور غنا سے پڑھو،جو شخص قرآن کو ترنم اور خوش آوازی سے نہیں پڑھتا وہ ہمارے رستے پر نہیں ہے اور قرآن کو پڑھتے ہوئے رویا کرو، اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو۔“ (ابوداود۲/۷۴، ابن ماجہ ۱/۴۲۴، شعب الایمان للبیہقی ۵/۱۵،مستدرک حاکم۱/۵۶۹)
[1] (سابقہ حاشیہ) أصواتکم بالقرآن کا معنی یہی ہوگاکہ قرآن کو پڑھتے ہوئے خوش آوازی سے پڑھو۔ یوں سمجھئے کہ خوبصورت آواز اور قرآن دونوں گویا ایک خوبصورت زیور ہیں جو ایک دوسرے کو زینت اور حسن بخشتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ خوبصورت آواز تلاوتِ قرآن میں ایسا حسن اور جادو پیدا کردیتی ہے کہ قرآن دلوں میں اترتا چلا جاتاہے۔
امام ابن جزری رحمۃ اللہ علیہ اپنے مقدمہ میں تجوید کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہو أیضا حلیۃ التلاوۃ وزینۃ الأداء والقراء ۃ ’’قرآن کوتجوید کے ساتھ پڑھنا بھی تلاوت کا زیور اور تلفظ کو حسن اور زینت بخشتا ہے ۔‘‘
جہاں تک حضرت براء رضی اللہ عنہ کی حدیث کی صحت و ضعف کا تعلق ہے تو یہ حدیث صحیح ہے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ ، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ کی سند کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ سند جید ہے اور اس حدیث کے راوی عبدالرحمن بن عوسجہ کو امام نسائی اور ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔
ازدی سے روایت ہے کہ یحییٰ بن سعد قطان نے کہا:’’میں نے عبدالرحمن بن عوسجہ کے متعلق مدینہ منورہ کے علما سے سوال کیا تو میں نے کسی سے بھی اس کی تعریف نہیں سنی۔‘‘
ابوعبید قاسم رحمۃ اللہ علیہ بن سلام فرماتے ہیں کہ ہمیں یحییٰ بن سعید نے شعبہ سے بیان کیا کہ انہوں نے فرمایا
’’مجھے ایوب سجستانی نے حدیث زینوالقرآن بأصواتکم کو بیان کرنے سے منع فرمایا تھا۔‘‘
ابوعبید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں ایوب نے اس لئے حدیث بیان کرنے سے منع کیا تھا کہ لوگ اس حدیث کو بنیاد بنا کر طرح طرح کی سروں کے لئے رخصت پیدا کرلیں گے۔ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس کے بعد شعبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ پربھروسہ کرتے ہوئے یہ حدیث جس طرح اسے بیان کی گئی تھی، آگے بیان کردی۔ اگر اس حدیث کو، اس خوف سے بیان کرنا چھوڑ دیا جاتا کہ باطل پرست اس کی تاویل سے غلط فائدہ اٹھائیں گے تو آج ہم ایک مسنون عمل سے محروم ہوجاتے۔ لوگوں نے تو قرآن کی متعدد آیات کو بھی تاویل وتحریف کی بھینٹ چڑھا کر انہیں ان کے اصل مفہوم سے پھیر دیا ہے تو کیا ان کی تاویل کے خوف سے اب قرآن کو بھی پڑھنا پڑھانا چھوڑ دیا جائے۔