کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 41
”اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اتنا متوجہ ہوکر نہیں سنتا جتنا کہ قرآن کوسنتا ہے جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اسے خوش الحانی اور ترنم سے پڑھتے ہیں ۔“ اسی طرح مصنف عبدالرزاق میں معمر سے روایت ہے: ما أذن لنبی حسن الصوت فی الترنم بالقرآن (۲/۴۸۲) نیز صحیح مسلم میں محمد بن ابراہیم التمیمی ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ماأذن لنبی حسن الصوت يتغنی بالقرآن يجهربه (مسلم: ۱۸۴۴) ابن ابی داود رحمۃ اللہ علیہ اور طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں الفاظ یوں ہیں : ما أذن لنبی حسن الترنم بالقرآن (فتح الباری: ۹/۷۱) (ج) تیسری وجہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے راجح ہونے کی یہ ہے کہ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ صراحت ہے کہ جو شخص خوبصورت آواز اور خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کرتاہے، اللہ اس کی آواز کو نہایت توجہ سے سنتا ہے اور اس حدیث کے الفاظ میں نہ کسی دوسرے معنی کا احتمال ہے اور نہ ہی تاویل کی گنجائش ہے۔ تو معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی سابقہ حدیث تو بالاولیٰ اسی مفہوم کی مقتضی ہوگی کیونکہ جب اللہ تعالیٰ ایک عام آدمی کی آواز کو توجہ سے سنتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کو کیوں نہ توجہ سے سنے گا !! (د) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول احادیث واضح الفاظ میں اس بات کی ترغیب دیتی ہیں کہ قرآن کوخوبصورت آواز اور خوش الحانی سے پڑھا جائے۔چنانچہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زينوا القرآن بأصواتکم ”قرآن کریم کو اپنی آوازوں سے زینت بخشو۔“ (ابوداود :۲/۷۴، نسائی ۲/۱۷۹، ابن ماجہ ۱/۴۲۶، مستدرک حاکم : ۱/۵۷۵) ایک دوسری روایت میں ہے: فإن الصوت الحسن يزيد القرآن حسنًا ( ”خوبصورت آواز یقینا قرآن کے حسن کودوبالا کردیتی ہے۔“ (’تذکار ‘ از قرطبی رحمۃ اللہ علیہ : ص ۱۱۴)
[1] یہ روایت ابوعمر زاذان (تابعی، صدوق) اور اوس بن ضمعج سے مروی ہے اور حدیث میں یہ زیادتی ان لوگوں کے دعویٰ کی نفی کرتی ہے جوکہتے ہیں کہ حدیث زینوا القرآن بأصواتکم مقلوب ( تبدیل شدہ) ہے اور اصل حدیث یوں ہے: زینوا أصوأتکم بالقرآن یا أحسنوا أصواتکم بالقرآن ’’اپنی آوازوں کو قرآن سے حسن بخشو یا اپنی آوازوں کو قرآن سے خوبصورتی عطا کرو۔‘‘ گویا ان کے بقول یہ حدیث اہل عرب کے قول عرضت الحوض علی الناقۃ (تالاب اونٹنی پر پیش کیا گیا) کی قبیل سے ہے۔ (تذکار: ص ۱۱۴) اگر ہم ان کی بات کو درست بھی مان لیں تو تب بھی ہم اس حدیث سے وہی کچھ مراد لیں گے جو حدیث لیس منا من لم یتغن بالقرآن سے مراد لیا تھا جس میں قرآن کو خوش الحانی سے پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس صورت میں زینوا