کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 40
کے ساتھ کرتے ہیں تو انہوں نے ان کا ردّ کرتے ہوئے فرمایا :
”اگر اس سے آپ کی مراد استغناء ہوتی تو آپ لم یتغن کی بجائے لم یستغن ارشاد فرماتے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس سے آپ کی مراد قرآن کو خوبصورت آواز کے ساتھ پڑھنا ہی ہے“۔ (فتح الباری: ۹/۷۱)
ابومجاہد رحمۃ اللہ علیہ (صاحب ِمضمون) فرماتے ہیں کہ ”حدیث کا سیاق و سباق ابن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر کو قبول نہیں کرتا،کیونکہ یہ حدیث قراء ت کے ذیل میں واقع ہوئی ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن آواز کی خوبی سے متصف کیا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت آواز کی و جہ سے آپ کی قراء ت کو نہایت توجہ اور انہماک سے سنتے ہیں ۔ یہ الفاظ اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ یتغنی یہاں خوش آوازی کے معنی میں ہی ہے اور ابن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر(بمعنی استغناء) خلافِ واقعہ ہے۔ پھریہ حدیث آواز کو خوبصورت بنانے کی کوشش پر اُبھارتی ہے،گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو شخص تلاوتِ کلام پاک کا پابندی سے التزام کرکے اپنی آواز میں خوش الحانی پیدا نہیں کرتا، ایسا شخص ہمارے طریقہ سے انحراف کی راہ اختیار کر رہا ہے۔ پھرحدیث سے استغناء مراد لینا، دراصل لوگوں کو ’تکلیف مالا یطاق‘ سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ ہر شخص محض تلاوتِ کلام پاک کے التزام سے دنیاداروں سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ (وضاحت کے لئے دیکھیں فتح الباری: ۹/۷۰)
دونوں اقوال میں موافقت: یہ اعتراض اس صورت میں وارد ہوگا جب ابن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کا یتغنی سے مقصود وہ استغناء ہو جو فقر کا متضاد ہے جیسا کہ ابوعبید رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے، لیکن اگر یتغنی سے ابن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کی مراد استغناءِ معنوی ہو، یعنی سابقہ روایات اور کتب سے استغناء جیسا کہ ابن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہاہے تو دونوں اقوال میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ توجیہ کی جا سکتی ہے کہ استغناءِ معنوی کی صورت میں بھی ’تغنی‘ سے مراد ترنم ہی ہوگا۔ کیونکہ قرآن کو خوش الحانی اور ترنم کے ساتھ پڑھنے سے ہی انسان شیطانی غنا (گانوں )سے بے نیاز ہو کر قرآنی غنا میں مشغول ہوسکتا ہے۔
مزید وہ چند وجوہات ملاحظہ فرمائیے جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا نقطہ نظر ہی راجح ہے یعنی تغنی سے مراد قرآن کو سوز اور خوش الحانی سے ہی پڑھنا ہے :
(ا) یہی معنی سیاق حدیث کے مناسب اور ہم آہنگ ہے، جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا۔
(ب) کئی دیگر احادیث اسی مفہوم کو متعین کرتی ہیں ۔مثال کے طور پر عبدالاعلیٰ کی روایت معمر سے اور وہ ابن شہاب سے بیان کرتے ہیں کہ
ما أذن اللَّه لشيیٴ ما أذن لنبی فی الترنم بالقرآن (طبری بحوالہ فتح الباری: ۹/۷۱)