کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 4
کہا جاسکے کہ انہیں ذاتی دشمنی، خاندانی رنجش، جائیداد کے تنازعے، لسانی بنیاد، سیاسی وجوہات یا پھر لین دین کے جھگڑے پر موت کا نشانہ بنایا گیا۔
دہشت گردی کے حوالے سے مختلف عوامل گنوائے جاسکتے ہیں جو ججوں ، وکیلوں ، صحافیوں ، افسروں ، ڈاکٹروں ، سماجی لیڈروں اور مذہبی قائدین کی جان لینے کی بنیاد بنتے رہے ہیں ۔ ججوں اور وکلا کے قتل کے پس پردہ، کرپشن اور دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت اور ان کی پیروؤں جیسے محرکات کارفرما تھے۔ حکیم سعید شہید رحمۃ اللہ علیہ جیسے سماجی رہنما کو مبینہ طور پر جگا ٹیکس کی ادائیگی سے انکار اور ایک لسانی تنظیم کے جرائم سے متعلق ثبوت ہاتھ آنے پر شہید کردیا گیا۔ ایڈیٹر ہفت روزہ ’تکبیر‘صلاح الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ کے قلم کو حق نگاری کے جرم پر لہو میں ڈبو کر روک دیا گیا۔ پولیس اور دیگر افسران اور ڈاکٹروں کو دہشت گردوں کے مفاد کے خلاف فرائض سرانجام دینے اور تفتیشی مراحل میں ٹھوس پیش رفت کو نابود کرنے کے لئے سفاکی سے قتل کیا گیا۔ اور مذہبی راہنماؤں کو ان کے عقائد میں سخت کوشی یا استقامت کے نتیجے میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا گیا۔
دہشت گردی کے ضمن میں بہت سے ایسے قتل بھی دیکھنے میں آئے جہاں قتل کے لئے باقاعدہ کسی خاص شخصیت کا انتخاب نہیں کیا گیا بلکہ محض جان کے بدلے جان والے اصول کے تحت کسی بھی ایک مکتب فکر کے دستیاب عالم دین یا ڈاکٹر، وکیل کو صرف اس لئے قتل کردیا گیا تاکہ دوسرے مکتب ِفکر کے کسی ایسے ہی مقتول کے خون کا حساب برابر کیا جاسکے۔
مولانا عطاء الرحمن ثاقب شہید رحمۃ اللہ علیہ اور ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک شہید رحمۃ اللہ علیہ کی شہاد توں کے آئینے میں مماثلتی حقائق نامے پر غور کیا جائے تو یہ بات پایہٴ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ یہ دونوں قتل دہشت گردی کے ان جوازات پر پورے نہیں اترتے جن کا مذکورہ بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے۔ لہٰذا ان دونوں قتلوں کی ذمہ داری روایتی مذہبی دہشت گردی کے کھاتے میں نہیں ڈالی جاسکتی۔ ان اگر دونوں علماے دین کی شہادت کا عمیق نظری سے تجزیہ کیا جائے تو تحقیق و جستجو کے بہت سے نئے اُفق دعوتِ فکر دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور افکار و عوامل کا دائرہ پھیلتے پھیلتے ۱۱/ ستمبر ۲۰۰۱ء کو تباہ ہونے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے واقعہ تک جا پہنچتا ہے۔
دنیا کی خود ساختہ واحد سپر پاور امریکہ نے اپنی دھرتی پر نازل ہونے والی اس عظیم تباہی کی پلاننگ کا ذمہ دار ایک مسلمان اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا اور بلا تحقیق یہ اعلان کیا کہ جن اُنیس نوجوانوں نے اس منصوبے کو اپنی جان دے کر کامیابی سے ہم کنار کیا، وہ بھی تمام کے تمام مسلمان تھے۔ اس کے بعد امریکہ