کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 39
”جس نے سورۂ آلِ عمران کی تلاوت کی، گویا وہ ہرچیز سے بے نیاز ہوگیا۔“ (’فضائل القرآن‘ از ابو عبید: ق ۴۹، جرمنی نسخہ) میرے خیال میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ماخوذ ہے جو آپ نے اہل صفہ کے لئے ارشاد فرمایا تھا۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ اس فرمان کے راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” (اے اہل صفہ!) تم میں سے کون یہ چاہتا ہے کہ روزانہ صبح کے وقت مدینہ کے بازار بطحان یا عقیق جائے اور کسی گناہ اور قطع رحمی کا ارتکاب کئے بغیر وہاں سے بڑے بڑے کوہان والی دو اونٹنیاں لائے۔ ہم نے کہا یانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو سب یہ چاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا :پھر تم کیوں مسجد کی طرف نہیں جاتے۔ وہاں جاکر کسی کو قرآن کی دو آیات کی تعلیم دینا یا تلاوت کرنا، دو اونٹنیوں سے بہتر ہے اور تین یا چار آیات کی تعلیم یا تلاوت تین یا چار اونٹنیوں سے بہتر ہے۔ علیٰ ہذا القیاس جتنی آیات ہوں گی، وہ اتنی ہی اونٹنیوں سے بہتر ہوں گی۔ “ (مسلم: ۱۸۷۰) دوسرا قول:ان علما کا ہے جن کے نزدیک یتغنی کا معنی قرآن کو خوش الحانی او رخوبصورت آواز سے پڑھنا ہے۔ ان کے دلائل اور پہلے قول کا ردّ: یہاں کلام عرب میں لفظ ِتغنی بے نیازی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اس سے حدیث من لم یتغنی بالقرآن… میں بھی یہی مفہوم میں استعمال ہونا تو لازم نہیں آتا۔ چنانچہ حرملہ رحمۃ اللہ علیہ بن یحییٰ اس بارے میں وضاحت فرماتے ہیں ”میں نے ابن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ یتغنی کا معنی قرآن کو لازوال دولت سمجھتے ہوئے دنیا داروں سے بے نیاز اور بے پرواہ ہونا ہے۔“ جس پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ”یہ مفہوم صحیح نہیں ہے۔ اگر ایسے ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتغنی کی بجائے یتغانی کا لفظ استعمال کرتے۔“ لہٰذا اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ قرآن کو اس طرح خوش الحانی ، ترنم، سوز اور درد کے ساتھ پڑھے کہ پڑھنے اور سننے والے پر خشیت ِالٰہی کی کیفیت طاری ہوجائے۔“ (فضائل القرآن از ابن کثیر :ص۳۳) حرملہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن وہب رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ،انہوں نے فرمایا کہ یتغنی سے مراد قرآن کو خوش آوازی اور ترنم سے پڑھنا ہے ۔ یہی مفہوم امام مزنی رحمۃ اللہ علیہ اور ربیع رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے۔ ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ ربیع بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے لیس منا من لم یتغن بالقرآن کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ اس کا مطلب قرآن کو (قواعد ِتجوید کا لحاظ رکھتے ہوئے) نہایت سوز اور دردِ دل کے ساتھ ترنم سے پڑھنا ہے۔ (مناقب الشافعی:ص۱۵۷) امام طبری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو جب معلوم ہوا کہ ابن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ لفظ تغنی کی تفسیر ’استغناء ‘