کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 34
کے لیے ملاحظہ ہو اعلام اہل العصر: ص ۶۸اور ۷۴ اور بخاری شریف کا باب یوں ہے :
باب الضجعة علی الأيمن بعد رکعتی الفجر” فجر کی دورکعتوں کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنا “
(ب) ایک آدھ منٹ باقی ہو تو تب بھی لیٹنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اسوقت صف بندی ضروری نہیں ․
(ج) اہل علم کے ایک گروہ کا یہی خیال ہے کہ یہ حکم صرف رات کو قیام کرنے والے کے لئے ہے کہ وہ کچھ سستا لے اور کتاب اعلام اہل العصر کے ص ۷۱ پر چھٹا مذہب یہی بیان ہوا ہے لیکن راجح مسلک یہی ہے کہ ایسا کرنا سب کے لئے مستحب ہے۔ امام بخاری نے باب بایں الفاظ قائم کیا ہے: باب من تحدث بعد الرکعتين ولم يضطجع ”فجر کی سنتیں پڑھ کر باتیں کرنا اور نہ لیٹنا“
٭ سوال:جمع تقدیم کرنے والا عشاء کی نماز مغرب کے وقت پڑھے تو وِتر اسی وقت پڑھ سکتا ہے یا غروبِ شفق کے بعد پڑھنا ضروری ہے ۔
(ابو عبدا لرحمن سلفی ، مسجد قدس، ٹاوٴن شپ)
جواب: اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ شافعیہ اور حنابلہ اس بات کے قائل ہیں کہ عشاء کی جمع تقدیم کی صورت میں شفق غائب ہونے سے قبل وتر پڑھے جا سکتے ہیں جب کہ مالکیہ اس بات کے قائل نہیں اور حنفیہ کے نزدیک عشاء کی جمع تقدیم ویسے ہی غیر درست ہے۔ اس کا تقاضاہے کہ وقت سے پہلے میرے نزدیک وِتر بطریق جائز نہ ہوں ۔ مرعاة المفاتیح (۲/۲۰۵)
اس صورت میں بظاہر جواز ہے کیونکہ عام حالات میں وتر عشاء کے تابع ہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب
٭ سوال: پانی کی نجاست کے بارے میں آپ امام مالک کے مذہب کو ترجیح دیں گے یا امام شافعی کے مذہب قُلّتین کو؟
جواب: اس مسئلہ میں اہل علم کا سخت اختلاف ہے۔ پہلے گروہ کا استدلال احادیث کے عمومات سے ہے جب کہ دوسری حدیث میں قلتین (پانچ مشکیں ) کی قید موجود ہے۔ مطلق کو مقید پر محمول کرنا اصولِ فقہ کا معروف قاعدہ ہے۔ لہٰذا ترجیح دوسرے مسلک کو ہے تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو: تحفة الاحوذی اور نیل الاوطار وغیرہ۔ ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی مسلک کو راجح قرار دیا ہے۔ (فتاویٰ اہلحدیث: ۱/۲۳۴)
٭ سوال:اذان کے دوران بیت الخلا جانے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ اذان کے کلمات کا جواب بھی دینا ہو اوراگر انتظار کرے توبیت الخلا اور وضو سے فراغت تک جماعت گذر جانے کا ڈرہو، خصوصاً نمازِ مغرب میں ؟
جواب: دورانِ اذان آدمی بیت الخلا میں جاسکتا ہے لیکن وہاں اذان کا جواب دینا منع ہے کیونکہ نجس مقام ہے۔ ایسی حالت میں تو نماز موٴخر ہوجاتی ہے چہ جائیکہ آدمی اذان کا جواب دینے کیلئے رُکا رہے ۔
٭ سوال:کیا اقامت میں حی علی الصلوةِ میں ة پر زیر پڑھنا، قدقامت الصلوة پر وقف کرنا جائز ہے ؟
جواب:اقامت کے ان کلمات کے اعراب کی ادائیگی کا محض جواز ہے، ورنہ اصلاً سماع میں وقف ہے۔ (عون المعبود:۱/۱۸۸)