کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 32
خاکسار گزشتہ ۲۵ برس کے دوران ہندو پاک کے مختلف شہروں میں عید کی نمازوں میں شامل ہوتا رہا ہے اور ہر جگہ خطبے کے بعد اجتماعی دعا ہی ہوتی رہی۔ بلکہ علماء کرام اور ائمہ نماز اس اجتماعی دُعاکی تاکید بھی فرماتے رہے خصوصاً صحیحین کے حوالے سے جہاں حائضہ عورتوں کی عید کے اجتماع میں شمولیت کی تاکید ہے یعنی وليشهدن الخير ودعوة الموٴمنين اور فيشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم (بخاری) وليشهد الخير ودعوة المسلمين(مسلم) کے احکام کو ا جتماعی دعا کی تاکید کے لیے سنت کے مترادف خاص کیا جاتا رہا ۔مگر اب اس پر بدعت ہونے کا احتمال ہونے لگا۔ محولہ بالا احکامِ نبوی کے باوصف اگر صحابہ کرام کا معمول اجتماعی دعا کا نہ تھا تو اس کاثبوت بھی ہونا چاہئے کہ ان کا طریق کار کیا تھا؟ کیا وہ (مردو زَن) خطبے کے فوراً بعد عید گاہ کو چھوڑ دیتے تھے۔یا انفرادی دعائیں مانگتے رہتے تھے جب کہ کسی کی دعا قلیل اور کسی کی طویل ہو سکتی تھی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اہلحدیث علماء کرا م نے بھی اس ’بدعت‘ کو کیسے جاری رکھا ہوا ہے؟ جن عورتوں کو نماز کی معافی ہو، انکی عید گاہ میں حاضری کے لیے تاکید کا مقصد کیا ہو سکتا ہے ؟ صرف خطبہ سن کر چلے جانا یا کچھ اور بھی ؟ مسئلہ کی وضاحت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں ۔(ڈاکٹر عبید الرحمن چوہدری ،لاہور) جواب :ظاہر یہ ہے کہ مشار الیہ حدیث میں ’دعوة المسلمین‘ سے مراد خطبہ عیدین میں ذکر اذکار اور کلماتِ وعظ ونصیحت ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہو سکا کہ عیدین کے بعد دعا کی ہو۔ احادیث کے راویوں میں سے کبھی کسی راوی نے بھی اس بات کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ اس وقت جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، وہ یہ کہ مسلمانوں کی جملہ حاجات وضروریات کا جائزہ لے کر ان کے حل کی سعی فرماتے ۔جب ساری ہیئت ِاجتماعی دعا ہی ہے تو پھر خو د ساختہ تکلّفات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے جس میں بجائے فائدہ کے نقصان کا پہلو یقینی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سبھی کچھ روحِ نماز سے غفلت کا نتیجہ ہے ورنہ نمازتو مناجاتِ ربّ اور قربِ الٰہی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ﴾ (العلق:۱۹) ”اور سجدہ کرو ( اور قربِ الٰہی کی کوشش کرتے رہو۔ “
[1] محترم حافظ صاحب کی سجدہ والی مثال حائضہ عورت کے حوالہ سے واضح نہیں ہے کیونکہ حائضہ عورت نماز نہیں پڑھتی ۔ البتہ حدیث میں وارد لفظ ودعوتہم کی دعا کے ساتھ تفسیر صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ صحیح بخاری میں ہے عن أم عطیۃ قالت کنا نؤمر أن نخرج یوم العید حتی نخرج البکر من خدرہا حتی نخرج الحیض فیکن خلف الناس فیکبرن بتکبیرہم ویدعون بدعائہم (صحیح بخاری مع الفتح: ۲/۴۶۱) ’’حضرت اُمّ عطیہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہمیں عید کے دن نکلنے کا حکم ہوتا۔ یہاں تک کہ ہم کنواری عورت او رحیض والی عورتوں کو بھی ساتھ لے جائیں ۔ وہ لوگوں سے پیچھے مردوں کے ساتھ تکبیریں کہتیں اور ان کی دعا میں شریک ہوتی تھیں ۔‘‘ حدیث نبوی سے ہی لفظ ’دعوت‘ کی وضاحت آجانے کے بعد دیگر معانی کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ مولانا محمد رمضان سلفی (اُستاذ جامعہ لاہور الاسلامیہ)