کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 31
دار الافتاء شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی
٭ عید کا خطبہ ایک یا دو؟… خطبہ عید کے بعد اجتماعی دعا؟
٭ فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کا حکم؟… اذان او راقامت ؟
٭ سوال: جمعہ کے خطبہ کی طرح عید کا خطبہ سننا بھی ضروری ہے یا جو اُٹھ کر جانا چاہے، جاسکتا ہے؟
جواب:عید کے خطبے کا سنناجمعہ کے خطبہ کی طرح ضروری نہیں بلکہ خطبہ نما زکے تابع ہے(یعنی چونکہ نماز عیدین سنت موٴکدہ ہے لہٰذا خطبہ سننا بھی واجب نہیں )۔(فتح الباری:۲/۴۴۶) بوقت ِضرورت اٹھ کر جانے کا جواز ہے۔
٭ سوال:کیا عید کا ایک خطبہ ہی ہونا چاہئے یادو خطبے دینے کی گنجائش بھی ہے؟ جبکہ امام نسائی نے ایک عام حدیث سے دو خطبوں کے جواز پر استدلال کیا ہے؟
جواب:صحیح روایات کے مطابق عید کا خطبہ ایک ہی ہے اور جن روایات میں دو کا ذکر ہے، ان میں کلام ہے۔ (ملاحظہ ہو : مرعاة المفاتیح۲/۳۳۰)
اور سوال میں نسائی کی ذکرکروہ روایت صحیح توہے لیکن اس میں دو خطبوں کی تصریح نہیں اور ابن ماجہ کی روایت میں تصریح تو ہے لیکن وہ ضعیف ہے، اس میں راوی اسماعیل بن مسلم بالاجماع ضعیف ہے اور دوسرا راوی ابوبکر بھی ضعیف ہے۔
اس سلسلہ میں ایک روایت مسند بزار میں بھی ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے۔( مجمع الزوائد:۲/۲۰۳)
٭ سوال:عید کے بعد اجتماعی دعا کرنا جائزہے ،بعض لوگ اسے بھی بدعت میں داخل کردیتے ہیں ؟
جواب:نمازِ عید کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں ، ظاہر ہے جب کوئی ثابت نہ ہو تو وہ خطرہ کا مقام ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: مرعاة المفاتیح ۲/۳۳۱
٭ سوال: کیا عید کی نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا بدعت ہے ، اگر نہیں تو کیا نماز کے بعد دعا مانگی جائے یا خطبہ کے بعد یا خطبہ کے دوران؟ اور ہاتھ اٹھائے جائیں یا نہیں ؟
جواب:نمازِ عید یا خطبہ کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں ، ظاہر ہے کہ جو چیز ثابت نہ ہو، وہ بدعت ہونے کے خطرہ سے خالی نہیں ۔ اور نماز یا خطبہ کے بعد اجتماعی دعا کرنا درست نہیں ۔
٭ سوال: ۱۰ مئی ۲۰۰۲ء کے ’الاعتصام‘ میں ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ نمازِ عید کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں اور بے ثبوت شے کا اختیار کرنا خطرے سے خالی نہیں ۔ عرض ہے کہ