کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 30
تو مسلمانوں نے بہت سی باتیں جو اللہ اور اس کے رسول نے کہی تھیں ، بدل دیں ۔ زیادہ تفصیل میں نہ جائیے، اسی مسئلہ کو لے لیجئے۔ انبیا ء کرام کی یاد زندہ رکھنے کے لئے فرمایا کہ ہر نماز کی ہر رکعت میں دن میں پانچ مرتبہ یہ دعا پڑھیں ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ، صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ﴾ الفاتحہ اور یہ بتایا کہ ان کا نام زندہ رکھنے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے ’اُسوۂ حسنہ‘ کی اتباع کی جائے۔ ان کے اخلاقِ کریمہ، خصائل حمیدہ اور اعمالِ صالحہ کی اقتدا کی جائے ﴿قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسُوْةٌ حَسَنَةٌ فِیْ اِبْرَاهِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَهُ﴾ (الممتحنہ: ۴) ”یقینا تمہارے لئے حضرت ابراہیم اور ان لوگوں کی زندگی میں جو ان کے ساتھ ایمان کے اعلیٰ ترین مدارج میں نظر آتے ہیں ، پیروی اور اتباع کے لئے بہترین نمونہ ہے۔“ اور ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الاحزاب: ۲۱) ”بلاشبہ تمہارے لئے اللہ کے رسول کی زندگی میں پیروی اور اتباع کے لئے بہترین نمونہ ہے۔“ لیکن بدعت پسند طبائع نے اس سچی یادگار اور حقیقی تذکار کی جگہ انسانوں کے مجسّموں اور رسمی تہواروں اور تقریبوں کو اختیار کرلیا اور ﴿صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ﴾ کی سعادت سے محروم ہوگئے۔ سید مجددین اور فخر محدثین امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ’اقتضاء‘ میں میلادِ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے کس قدر بصیرت افروز ارشاد فرمایا ہے ۔ اور اسی پر ہم اس مضمون کو ختم کرتے ہیں : فإن هذا لم يفعله إنسان مع قيام المقتضیٰ به وعدم المانع منه لوکان هذا خيرا محضا أوراجحا لکان السلف أحق به منا ، فإنهم کانوا أشد محبة لرسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم وتعظيما له منا وهم علی الخير أحرص وإنما کمال محبته وتعظيمه في متابعته واتباع أمره وإحياء سنته باطنا وظاهراً ونشر ما بعث به والجهاد علی ذلک بالقلب و اليد واللسان فإن هذه طريقة السابقين الأولين من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم بإحسان ”مجالس میلاد کا انعقاد سلف سے قطعاً ثابت نہیں باوجودیکہ کوئی مانع موجود نہ تھا بلکہ اس کے مقتضیات موجود تھے۔ اگر یہ محض خیرو بھلائی یا راجح بسوئے خیر و برکت ہوتیں تو سلف ہم سے زیادہ اس کے مستحق تھے۔ وہ ہم سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و محبت کرنے والے تھے، اور وہ ہم سے کہیں زیادہ نیکی کے خواہشمند تھے، اصل بات یہ ہے کہ آپ کی تعظیم و محبت کی صحیح صورت یہی ہے کہ آپ کے ارشادت کی تعمیل کی جائے، آپ کی سنتوں کو زندہ کیا جائے، پوشیدہ اور علانیہ۔ آپ کی تعلیمات کی دنیا میں اشاعت کی جائے اور منکرات سے روکنے کے لئے دل، زبان اور ہاتھ سے جہاد کیا جائے۔ پس یہ ہی طریقہ مرضیہ ان مہاجرین وانصار کا ہے جو سب سے پہلے اسلام سے مشرف ہوئے اور اسی طرح ان لوگوں کا جو ان کے ٹھیک متبع اور پیروکار تھے۔“