کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 3
کرتے تھے۔ انہوں نے ایک عرصہ تک ٹیلی ویژن پر قرآن و حدیث پر مبنی پروگرام اس حسن و سلیقے سے پیش کئے کہ کروڑوں اسلامیانِ عالم کی دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ ان کی اگلی منزل ایک بین الاقوامی اسلامی ٹی وی چینل کا قیام تھا۔ جس کے ذریعے وہ دنیا بھر کو اسلام کی روشنی سے منور کرنا چاہتے تھے۔
۷/ مئی ۲۰۰۲ء کی ایک شام کو انہیں فون کرکے بلایا گیا اور ایک قطعہ اراضی، دینی مدرسے کے لئے، ان کے ذریعے مخصو ص کرنے کی پیش کش کی گئی۔ ڈاکٹر صاحب ڈرائیور کے ہمراہ گھر سے روانہ ہوئے، مہران بلاک علامہ اقبال ٹاؤن ان کا مقتل ٹھہر چکا تھا۔ اس مقام پر دو دہشت گرد موٹر سائیکل سواروں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے اس ممتاز اور منفرد عالم دین کو شہید کردیا۔ ان کے ڈرائیور اعجاز کو بھی اسی انداز میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
دونوں وارداتوں کے فوراً بعد سارے شہر کو سیل کردیا گیا لیکن قاتل بھری آبادیوں میں ایک ایک تیسرا قتل کرنے کے بعد روپوش ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس نے روایتی انداز میں بہت سے زاویوں سے ان وارداتوں کا کھوج لگانے کی کوشش کی۔ ماہرین سے مبینہ قاتلوں کے سکیچ بنوا کر اخبارات میں شائع کروائے لیکن نتیجہ وہی نکلا جو اس طرح کے معاملات میں نکلا کرتا ہے۔ یعنی دونوں علمائے دین کے قاتلوں کو دہشت گردی کی وارداتیں قرار دے کر ان پر سرد مہری کا قفل لگا دیا گیا۔
مذکورہ بالا دونوں وارداتوں کے مماثل پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے تو حسب ِذیل حقائق سامنے آتے ہیں :
۱۔ دونوں علماے دین کو ایک ہی انداز میں قتل کیا گیا یعنی آتشیں اسلحہ سے ان کے سروں کو نشانہ بنایا گیا․
۲۔ دونوں وارداتوں میں ۳۰ بور کے پسٹل استعمال کئے گئے اور تین تین افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا․
۳۔ دونوں وارداتیں موٹر سائیکل ہنڈا ۱۲۵ پر باریش مجرموں نے کیں اور فرار ہونے میں کامیاب رہے۔
۴۔ دونوں علما کی گاڑیاں چلانے والے شوفروں کو بھی زندہ نہیں چھوڑا گیا۔
۵۔ دونوں شہدا کا تعلق کسی سرگرم مذہبی جماعت، کسی جوشیلے گروہ، یا جہادی گروپ سے نہیں تھا۔
۶۔ قتل کیلئے ایسے علماے دین کو منتخب کیا گیا جو فرقہ وارانہ تعصب سے ماورا ہونے کی شہرت رکھتے تھے․
۷۔ اشاعت ِدین اور تفہیم قرآن و حدیث کے سلسلے میں ان کا ا سلوبِ بیان عام مسلمانوں کی غالب اکثریت میں مقبول و موٴثر بن کر اُبھر رہا تھا۔
۸۔ دونوں کے بارے میں اب تک ایسی کوئی ٹھوس شہادت دستیاب نہیں ہوئی جس کی بنیاد پر حتمی طور پر