کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 29
اور یہ اسی کا نتیجہ ہے جوآپ دیکھ رہے ہیں کہ قصائدوغزلیات پڑھنے والے قرآنِ مجید کے سننے سنانے میں بے شوق ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات آپ دیکھیں گے کہ قرآنِ مجید کے درس میں اس مذاق کے لوگوں کی اوّل تو حاضری ہی بہت کم ہوتی ہے اور اگر آبھی جائیں تو اس قدر جلد اُکتا جاتے ہیں کہ اس سے اگر دس گنا زیادہ وقت بھی قصائد و غزلیات کے سننے میں صرف کرنا پڑے تو پھراسے شوق و ذوق اور دلچسپی کے ساتھ سنیں گے اور جو لذت وہ گانے بجانے اور غناء و سرود میں محسوس کرتے ہیں ، وہ قرآن کی تلاوت یا ا س کے درس میں حاضر ہوکر سننے میں نہیں پاتے۔
اسی طرح جو شخص کتاب و سنت کی جگہ فلاسفہ ملا عنہ اور متکلمین متحیرین کی تصنیفات میں اپنی دلبستگی اور اطمینانِ قلب کا سامان پاتاہے، اس کے دل میں یقینا علومِ کتاب و سنت اور طریقہ سلف صالحین کی نفرت جاگزیں ہوجاتی ہے اور یہ یہاں تک ترقی کرجاتی ہے کہ بسا اوقات علماء ِکتاب و سنت کو جاہل اور عاملین طریقہ سلف کو احمق بتانے میں بھی کوئی کوتاہی نہیں کرتے اور بازاری لوگوں کی طرح سلفی العقیدہ حضرات کا تمسخر اڑانااور ان کی تحقیر و تذلیل کرنا ان کا شیوہ ہوجاتا ہے۔ غرض یہ کہ حکمت ِاسلام اور حکمائے اسلام (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، ائمہ دین) کی محبت اور قدرو منزلت ان کے دل سے زائل یا کم ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ حکمت ِفلاسفہ یونان اور ان کے خوشہ چین (متکلمین) کی محبت اور عظمت پیدا ہوجاتی ہے۔
اور اسی طرح جو لوگ اولیاء کرام اور صلحاء اُمت کی قبروں کی زیارت کے لئے اور ان کے عرسوں میں شامل ہونے کے لئے ہمیشہ سفر کرتے رہتے ہیں اور اس کے عادی ہوجاتے ہیں ، وہ اکثر حج بیت اللہ الحرام سے محروم رہتے ہیں ، بلکہ بعض کی تو یہ حالت ہوجاتی ہے کہ باوجود قدرت و استطاعت کے اگر حج نہ کرسکیں تو طبیعت پر کسی قسم کا ملال نہیں گزرتا، لیکن اگر خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ یا پیرانِ کلیر کے عرس میں کسی سال شامل نہ ہوں تو ان کو سخت صدمہ ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ حج بیت اللہ کی محبت اور عظمت دن بدن ان کے دل سے کم ہوجاتی ہے اور اس کی جگہ اجمیر ٭کے حج کا شوق و ذوق اور اس کی عظمت بڑھ جاتی ہے۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ ارکانِ اسلام اور شعائر ِدین کے لئے اس سے بڑھ کر اور کون سی چیز زیادہ مہلک ہوسکتی ہے؟
غرض یہی وہ ’استبدالِ نعمت‘ ہے جس کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا۔ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر نہ تو ہم قانع ہوئے اور نہ اس کو ہم نے کامل سمجھا، ہم نے بہت سی چیزیں شریعت میں بڑھائیں کہ شریعت کو کامل کردیں ۔ شریعت کی بہت سی بتائی ہوئی چیزوں کو چھوڑ کر ان کی جگہ دوسری شریعت تجویز کی، اگر یہود نے حطة کی جگہ حنطة کہا تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا قَوْلاً غَيْرَ الَّذِیْ قِيْلَ لَهُمْ﴾ ”ظالموں نے اس بات کو بدلا، جو ان سے کہی گئی تھی“