کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 26
﴿وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهِ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّيْنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ وَحَسُنَ اُوْلٰئِکَ رَفِيْقًا﴾
(النساء: ۶۹)
”اور جن لوگوں نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی، تو وہ سب ان خوش نصیبوں کے ساتھی ہوجائیں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا اور وہ انبیا ، صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں ، اور یہ کیا ہی اچھی رفاقت ہے۔“
اس آیت ِکریمہ میں یہ بتلایا دیا گیا کہ جس راہ پرچلنے کی سورۂ فاتحہ میں ہرموٴمن التجا کرتا ہے، وہ راہ انعام یافتہ گروہ کی ہے جس سے مراد انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں اور یہ چار گروہ وہ ہیں جن کے اندر نوعِ انسانی کا تمام اَصلح اور سعید حصہ آگیا ہے۔ انسانی آبادی میں جب کبھی عمل صالح کی صداقت ظہور پذیر ہوگی تو ضرور ی ہے کہ انہی انعام یافتہ چار جماعتوں میں سے کسی جماعت سے متعلق ہو۔
اب دیکھئے کہ قرآنِ حکیم نے یادگار اور تذکار کے اصلی مقصد کو تمام رسوم کی آلودگیوں سے صاف کرکے کس طرح قائم کردیا ہے۔ اس کے لئے کیسی محفوظ و مصؤن راہ اختیار کی ہے کہ ہر نماز اور اس کی ہر رکعت میں ’صراطِ مستقیم‘ پر چلنے کیجب التجا کرتا ہے تو وہ انعام یافتہ گروہ کی ’اُسوۂ حسنہ‘ کو پیش نظر رکھ کر ان کی یاد کو زندہ رکھے اور ان کے عقائد ِحسنہ اور اعمالِ صالحہکے نمونے کو کبھی فراموش نہ ہونے دے۔ پھر اگر یہ دنیا کی مقدس ہستیوں کی سچی یادگار اور ان کا حقیقی تذکار نہیں توکیا ہے؟ دنیا نے ’مشاہیر پرستی‘ کی حقیقت کبھی پتھر کے بتوں ، کبھی اینٹوں کی عمارتوں ، کبھی انسانوں کے مجسّموں ، کبھی ملکوں ، کبھی قوموں کی وقتی رسموں اور تقریبوں میں تلاش کی ہے۔لیکن قرآنِ کریم نے ایسی یادگار کی جو ہرروز ان میں پانچ مرتبہ ہر موٴمن کے سامنے آتی ہے اور ہر موٴمن راہِ سعادت حاصل کرنے کے لئے ان کی یادگار کو زندہ رکھنا اپنے لئے موجب ِہدایت اور ذریعہ نجات سمجھتا ہے۔
استبدالِ نعمت
﴿فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا قَوْلاً غَيْرَ الَّذِیْ قِيْلَ لَهُمْ﴾ (البقرة: ۵۹)
” پھر ان ظالموں نے وہ بات جو اُن سے کہی گئی تھی، بدل ڈالی۔“
آج ہر جگہ عیدمیلاد کی مجلسیں منعقد ہورہی ہیں اور ماہِ ربیع الاول میں تشریف لانے والے مقدس انسان کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے مدح و ثنا کی صدائیں بلند ہورہی ہیں اور غناء و سرود کے نغموں میں قصائد ِمدحیہ پڑھے جارہے ہیں ، کافوری شمعوں کی قندیلیں روشن کی جارہی ہیں ، پھولوں کے گلدستے سجائے جارہے ہیں ، مجلس میں گلاب کے چھینٹوں سے مشامِ روح کو معطر کیا جارہا ہے۔
لیکن اے کاش کہ جس کی یاد اور محبت میں ہم اپنے گھروں کو مجلسوں سے آباد کرتے ہیں ، اس کی