کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 24
بڑے بڑے میناروں کے ذریعہ یادگاریں نہیں بنائیں جو تندو تیز ہواؤں اور چمکتی ہوئی بجلیوں کی ایک نگہ خشمگیں کی تاب نہ لاسکیں ۔ اس نے یادگاروں کے لئے لوہے اور پتھر کے بت نہیں بنائے جن کو آگ کا ایک شعلہ گلا سکتا ہے اور ایک موحد کا ہاتھ اس کو چکنا چور کرسکتا ہے۔ اس نے دنیا کے سامنے انبیاءِ کرام کی پاکیزہ زندگیوں کو پیش کیا اور یہی وہ حقیقت ِکبریٰ ہے جسے قرآن کریم نے ’اُسوۂ حسنہ‘ کے جامع و مانع لفظ سے تعبیر کیا ہے۔کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسانی سعادت کے لئے محض تعلیم بالکل بیکار ہے جب تک اس تعلیم کے ساتھ اس کے زندہ نمونے انسانوں کے سامنے نہ ہوں اور جو اثر انسان کی منفعل طبیعت پر انسانی نمونہٴ عمل سے پڑ سکتا ہے، وہ محض تعلیم اور سماعت ِاحکام سے نہیں پڑ سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کی ہدایت کے لئے صرف کتابوں اور شریعت ِ مطہرہ پر کفایت نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ انبیاء کرام کا عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ وہ جس شریعت اور جس کتاب کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے، اس کا عملی پیکر خود ان کی پاک زندگی ہوتی تھی، اور اسی حقیقت کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس وقت بیان کیا، جب ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ’خلق عظیم‘کے متعلق سوال کیا گیا جس کی بشارت قرآن نے یوں دی تھی کہ ﴿اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمِ﴾ (القلم:۴) تو فرمایا: کان خلقہ القرآن یعنی اگر تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم کو دریافت کرنا چاہتے ہو تو قرآن کو دیکھ لو۔ اس میں حروف و الفاظ ہیں تو آپ اس کے پیکر عمل ہیں ۔ اگر وہ چراغ ہے تو آپ اس کی روشنی ہیں ۔ حقیقت ایک ہی ہے جس نے ایک جگہ علم کی اور دوسری جگہ عمل کی صورت اختیار کی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ’سنت‘ کو کتاب کا ایک جزو اور مفہومِ’ کتاب‘ میں تبعاً داخل سمجھا جاتا ہے۔ جو ظاہربین اس حقیقت ِکبریٰ سے ناواقف اور بے خبر ہیں وہ ’قرآن‘ کے ساتھ ’حدیث‘ کا لفظ سنتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ’حدیث‘ کی پیروی کا مطالبہ ایک ایسا مطالبہ ہے جو قرآن مجیدکے علاوہ ایک دوسرے قانون کو تسلیم کراتا ہے، حالانکہ ’سنت‘ کی اطاعت ’کتاب‘ کی اطاعت میں داخل ہے اور ’سنت‘ علم قرآنی ہی کی عملی تفسیر ہے۔
غرض کہ انسانی ہدایت و سعادت کے لئے’تعلیم‘ کے ساتھ’نمونہ‘ اور’کتاب‘ کے ساتھ ’سنت‘ یا ’حکمت‘ ایک ضروری چیز ہے جس سے اُمت کو کسی حالت میں بھی استغنا نہیں ہوسکتا اور یہی وہ دو نعمتیں ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے ہرنبی کو سرفرازکیا۔ ابراہیم علیہ السلام کے خاندانِ نبوت کے لئے فرمایا:
﴿فَقَدْ اٰتَيْنَا آلَ اِبْرَاهِيْمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَاٰتَيْنَاهُمْ مُلْکًا عَظِيْمًا﴾ (النساء: ۵۴)
”ہم نے خاندانِ ابراہیم کو کتاب اور سنت دی اور ان کو بہت بڑی سلطنت دی۔“
حضرت مریم علیہا السلام کو جب عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت دی تو اس میں فرمایا: ﴿وَيُعَلِّمُ الْکِتَابَ