کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 23
تھا۔ اور یہی وہ فریق ہے جس کی کوششوں اور مشقتوں کے ضائع ہونے کو قرآن کریم نے تحبط أعمال سے جابجا مختلف پیراؤں میں ظاہر کیا ہے۔ فرمایا: ﴿قُلْ هَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالاً ، اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِیْ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا، اُوْلٰئِکَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِاٰيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ اَعَمَالُهُمْ فَلاَ نُقِيْمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيْامَةِ وَزْنًا﴾ (الکہف:۱۰۳تا ۱۰۵) ”اے پیغمبر! مخالفین سے کہہ دو کہ کیا ہم تمہیں وہ لوگ بتائیں جو اپنے اعمال کے لحاظ سے بڑے گھاٹے میں ہیں ؟ (ہاں تو یہ) وہ لوگ ہیں جن کی دنیاوی زندگی کی کوشش سب ضائع ہوگئی اور وہ اسی خیال میں ہیں کہ وہ اچھے کام کررہے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں کو اور قیامت کے دن اس کے دربارمیں حاضر ہونے کو نہ مانا، پس ان کی تمام محنتیں اور راہروی کی مشقتیں بالکل اِکارت گئیں ۔ پس قیامت کے دن ہم ان کے اعمال (نیک) کا کوئی تول قائم نہیں کریں گے۔“ جس طرح بے راہروی اور گم گشتگی ٴ طریق کے مختلف حالات و مراتب اور درجات ہوتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح ضلالت ِاعمال کی حالت ہے، اس میں بھی تفاوتِ مراتب اور اختلافِ درجات ہے اور اس کی جومثال اس وقت ہمارے پیش نظر ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر قوم نے اپنے مشاہیر اور بزرگوں کی بڑائیوں اور عظمتوں کی یاد کو مختلف یادگاروں ، تہواروں اور قومی مجمعوں کے انعقاد کی صورت میں زندہ رکھناچاہا ہے، لیکن یہ چیزیں اپنی جگہ پر اگرچہ کیسی ہی اہم اور سعادت بخش ہیں ، اور ان سے قومی زندگی کے نشوونما کو کتنا ہی عظیم الشان فائدہ پہنچتا ہے، لیکن افسوس کہ دنیا کی عالمگیر ضلالت نے جو ہر عمل میں حقیقت اور مقصد کو فنا کرتی اور ظواہر و رسوم کی پوجا کرتی ہے، یہاں بھی انبیاءِ کرام اور دوسرے بزرگانِ سلف کی یادگاروں کا جو اصل مقصد تھا یعنی اُسوۂ حسنہ کی اتباع اور نیکی و صداقت کے عملی نمونوں کی پیروی اور اعمالِ صالحہ کی حقیقی عملی یاد اس کو تو مٹا دیا اور اس کی جگہ محض رسموں کی عظمت اور تہواروں کی رونق اور میلوں کی چہل پہل چھوڑ دی، اور اصلی روح ضائع کردی۔ یہی وجہ ہے کہ اعمال کی جگہ رسوم اور افراد واسماء کی پرستش نے لے لی اور اسی چیز نے دو تین نسلوں کے بعد انسان کو بت پرستی تک پہنچا دیا !! اُسوہٴ حسنہ لیکن قرآنِ حکیم نے ان تمام رسمی طریقوں سے انکار کردیا جو عام طور پر دنیا نے اختیار کررکھے تھے اس نے یادگاروں کے لئے سالانہ مجمعوں اور جلوسوں پر زور نہیں دیا جو کچھ مدت کے بعد رسوم پرستی کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور یادگار کی حقیقی روح مفقود ہوجاتی ہے۔ اس نے اینٹ اور چونے کی عمارتوں اور