کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 22
”بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان لوگوں کے لئے پیروی اور اتباع کا بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے اور بکثرت ذکر کرنے والے ہیں ۔“
کیونکہ بڑے بڑے اولوالعزم انسانوں کی بڑائیوں اور عظمتوں کی یادگار کو تازہ اور زندہ رکھنے کے لئے جس روح کی ضرورت ہے، اس کا تعلق محض تذکرہ اور یادآوری سے نہیں ہوتا بلکہ اس سے اصلی غرض یہ ہوتی ہے کہ جو اعمالِ حسنہ اور اخلاقِ کریمہ، بصائر اور مواعظ ِجلیلہ ان کی زندگی سے وابستہ ہیں اور جن کی یاد اور تذکرہ میں بنی نوع انسان کے لئے سب سے زیادہ موٴثر دعوت ِعمل موجود ہے ، کو اس طرح زندہ رکھا جائے کہ آئندہ نسلیں ان اعمالِ حسنہ کے نمونوں کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیں ۔
ضیاعِ مقصد
لیکن دنیا کے خسران اور ناکامی کا راز صرف اسی میں نہیں ہے کہ وہ سچائی کی طرف بڑھتی نہیں یا صداقت کی تلاش کے لئے اس میں کو ئی تڑپ نہیں ہوتی۔ نہیں بسا اوقات حق کی تلاش میں دنیا قدم اٹھاتی ہے اور اس راستہ پر گامزن بھی ہوتی ہے، لیکن اس کا خسران اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ وہ اٹھنے اور اقدام کے بعد اپنا راستہ گم کردیتی ہے، اور ایسا ہوتا ہے کہ جس طرح اس راستہ کی طرف نہ چل کر اس سے محروم تھی، ٹھیک اس طرح اس کی طرف چل کر بھی محروم رہتی ہے۔
دیکھئے، قرآنِ کریم میں انسان کے خسران و نقصان کے جس قدر حالات بیان کئے ہیں ، ان میں سے ایک اور زیادہ پیش آنے والی حالت کے لئے ’ضلالت‘کا لفظ اختیار کیا ہے، اور ’ضلالت‘کا ٹھیک ترجمہ ’گم راہی‘ اور راستے میں ’بھٹک جانے‘ کے ہیں ۔ فرمایا:
﴿وَاَضَلُّوْا کَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيْلِ﴾ (المائدة: ۷۷)
”بہتوں کو گمراہ کیا اور خود بھی راہ راست سے بھٹک گئے۔“ اور
﴿وَلاَ تَتَّبِعِ الْهَوٰیٰ فَيُضِلَّکَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ﴾ (ص ٓ: ۲۶)
”خواہش نفسانی کے پیچھے مت لگو، یہ تمہیں اللہ کے راستے سے گم کردے گی۔“
اور سورہ فاتحہ میں مغضوب علیہم کے ساتھ ایک اور گروہ کا بھی ذکر کیا ہے، جس کا نام ضالین رکھا ہے، تو وہ یہی گم کردہ راہ گروہ ہے جو راستے پر چلنے کے لئے اُٹھا مگر راستہ گم کردیا۔
پس قرآنِ کریم نے انسان کی بدحالی اور تباہی کی سب سے بڑی عام حالت کو اس لفظ ’ضلالت‘ سے تعبیر کیا ہے، جس کی وجہ یہی ہے کہ بسا اوقات انسان کو اٹھنے اور چلنے سے انکا رنہیں ہوتا۔ وہ سفر تو اختیار کرتا ہے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ منزلِ مقصود کی حقیقی شاہراہ اس پرنہیں کھلتی اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ باوجود چلنے کے منزلِ مقصود سے اسی طرح محروم رہتا ہے جس طرح وہ بدبخت محروم رہا جس نے چلنے کا قصد بھی نہیں کیا