کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 20
سنت وبدعت مولانا سید داود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ
عید ِمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم
اگرچہ مجالس میلاد سال بھر میں وقتاً فوقتاً منعقد ہوتی ہی رہتی ہیں ، بلکہ اس کی وسعت اور ہمہ گیری کا تو یہ عالم ہوچکا ہے کہ ہر خوشی کی تقریب میں ، ہر مصیبت و تکلیف سے نجات و راحت حاصل کرنے اور ہر آرام و راحت کے میسر ہونے پر مجالس مولود منعقد کی جاتی ہیں ، لیکن اس مہینے میں زیادہ اہتمام اور خصوصیت کے ساتھ یہ مجالس منعقد کی جاتی ہیں ۔ مکانات کی زیبائش و آرائش کے ساتھ، گلی کوچوں اور بازاروں کی بھی تزئین و خوبصورتی کی جاتی ہے۔ دو کانوں کو خوبصورت، زرّین اور ریشمی کپڑوں سے سجایا جاتا ہے، درختوں کی سبز اور بابرگ ٹہنیوں سے دروازوں اور گذرگاہوں کو اس طرح مزین کیا جاتا ہے، ان میں مختلف روشنیوں کی آویزانی اور بجلی کے قمقموں کی روشنی ایک عجب بہار پیداکردیتی ہے۔ اور اگر ان مجالس کی حقیقت آپ معلوم کریں گے تو ان میں بھی آپ کو عجب مناظر دکھائی دیں گے، سبز عمامے اور لمبے لمبے چوغے پہنے ہوئے مولود خواں واعظ اور قصہ گو ملا نے انواع و اقسام کے لذیذ کھانوں کی طرف توجہ قلبی کئے ہوئے ذکر ِمولد کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ اس تذکارِ میلاد میں قصص و حکایات اور ضعیف موضوع روایات کا ایک افسوسناک سلسلہ آپ کو دکھائی دے گا، جو اس وقت صحیح طور پر پیغمبر اسلام کے متعلق مخالفین کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا موجب اور باعث بنا ہوا ہے۔
ان حکایاتِ موضوعہ تک ہی اگر میلاد خوانی کو محدود رکھتے تو بھی ایک بات تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ذکر کرتے کرتے ایک دم ان میں کا ایک قسّیسں کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس خیال سے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح حاضر ہوگئی ہے تو از راہِ ادب سب کے سب دست بستہ کھڑے ہوجاتے ہیں اورجو خشوع و خضوع اور توجہ و اِنابت اس وقت ان لوگوں کے اعضاء وجوارح پر طاری ہوتی ہے، اس کا عشر عشیر بھی ان کی نمازوں میں نظر نہیں آتا جبکہ وہ ربّ السماوات والارض کے حضور دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں یا جبکہ سرعجز و نیاز اس حی و قیوم کی بارگاہ میں رکھتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ ۱۲/ ربیع الاول کو ہر جگہ اور جہاں کہیں تمام عالم اسلام میں اس قسم کی مجالس میلاد منعقد ہوتی ہیں ، ہر جگہ یہی خیال کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہیں، اگرچہ یہ مجالس ایک ہی وقت میں ہوں اور مختلف اقطارِ ارض میں ہوں ۔