کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 18
اسلامی ممالک کی یہ صورتحال بھی اس بات کے اثبات کے لئے کافی ہے کہ اُخروی نجات ہی نہیں ، بلکہ دنیوی سعادت کا مدار بھی محمد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے نظام کے اپنانے ہی میں ہے، جن اسلامی ممالک نے انہیں اپنایا ہے وہ پرامن معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہیں اور جو محض سیرت کانفرنسیں منعقد کرانے کی حدتک ہی اسلام کو مانتے اور باقی ہر وقت منافقانہ بلکہ باغیانہ طرزِ عمل اختیار کئے رکھتے ہیں ، وہ ہر لحاظ سے ناکام ہیں ، وہ سیاسی ابتری کا بھی شکار ہیں اور معاشی بدحالی کا بھی۔ وہ بدانتظامی و بداخلاقی میں بھی مبتلاہیں اور بدامنی و بے سکونی میں بھی، ذلت و اِدبار ان کا مقدر بنا ہوا ہے اور دریوزہ گری ان کا شعار!
حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوجو مقام و فضیلت اور مرتبت و شان عطا کی گئی ہے، اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ امت مسلمہ علمی دلائل سے بھی دنیائے انسانیت کو اسلام کی حقانیت و صداقت کی قائل کرتی اور اپنے عمل سے بھی اسلام کا سچا نمونہ پیش کرکے ہر شعبہٴ زندگی میں اسلامی تعلیمات کی برتری اور اسی میں انسانیت کی نجات کے انحصار کو ثابت کرتی۔ اللہ تعالیٰ نے امت ِمسلمہ کا مقام و منصب بھی یہی متعین کیاتھا: ﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَاءَ عَلیٰ النَّاسِ﴾ (البقرہ:۱۴۳) اور ﴿کُنْتُمْ خَيٍرَاُمّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ﴾ (آلِ عمران ۱۱۰) میں اسی مقام و منصب اور اس کے تقاضوں کابیان و تذکرہ ہے۔ مگر افسوس ع ’مژدہ باد اے مرگ، عیسیٰ ہی بیما رہے‘ والی بات ہے۔ ہماری غفلت، بے عملی و بدعملی اور زبوں حالی کا وہی حال ہے جو آج سے تقریباً ایک صدی قبل مولانا حالی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا تھا۔ انہوں نے فرمایا تھا ۔
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے بھنور میں جہاز آکے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دور اور طوفاں بپا ہے گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہل کشتی پڑے سوتے ہیں ، بے خبر اہل کشتی
گھٹا سر پہ ادبار کی چھا رہی ہے فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس و پیش منڈ لارہی ہے چپ و راست سے یہ صدا آرہی ہے
کہ کل کون تھے، آج کیا ہوگئے تم ابھی جاگتے تھے ابھی سوگئے تم
پر اس قوم غافل کی غفلت وہی ہے تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں پر رعونت وہی ہے ہوئی صبح اور خوابِ راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
بہرحال ضرورت ہے کہ مسلمان اپنا مقام و منصب بھی سمجھیں اور اس ذمے داری کو بھی، جو اس