کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 16
الایمان، باب وجوب الايمان برسالة نبينا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث نمبر ۱۵۳، بہ تحقیق فواد عبدالباقی) ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، میری اُمت میں سے جس نے بھی میرا نام سنا، وہ یہودی ہو یا نصرانی۔ پھر وہ میری رسالت پر ایمان لائے بغیر ہی مرگیا، تو وہ جہنمیوں میں سے ہوگا۔“ اس حدیث میں اُمت سے مراد، اُمت ِدعوت ہے، یعنی قیامت تک آنے والے انسان۔کیونکہ آپ تمام انسانوں کے لئے نبی ہیں ، اس لئے تمام انسان آپ کی اُمت ہیں لیکن اُمت دعوت، یعنی آپ کی دعوت کی مخاطب اُمت اور یہ قیامت تک آنے والے تمام انسان ہیں ، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، نظریہ اور ازم سے ہو۔ یہودی اور عیسائی کا نام تو مثال کے طور پر ہے، ورنہ مراد ہر غیر مسلم ہے۔ علاوہ ازیں یہودی اور نصرانی کا نام لینے میں یہ عظیم حکمت ہے کہ جب یہودی اور نصرانی کہلانے والوں کی نجات بھی رسالت ِمحمدیہ کے تسلیم کرلینے ہی میں ہے، تو دوسرے کب مستثنیٰ ہوں گے، حالانکہ یہ دونوں آسمانی مذاہب کے ماننے والے اور آسمانی کتابوں کے حامل ہیں ، اسی لئے قرآنِ کریم میں انہیں اہل الکتاب کہا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اگر اس قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہو ا اور آپ کی رسالت کو تسلیم نہیں کریں گے، تو ان کی بھی نجات ممکن نہیں ، کیونکہ نزولِ قرآن کے بعد، پچھلی تمام کتب ِسماویہ منسوخ ہوگئیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد، سب نبیوں کی نبوتیں ختم ہوگئیں ۔ اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والذی نفس محمد بيده لو بدا لکم موسیٰ فاتبعتموہ وترکتمونی لضللتم عن سواء السبيل ولوکان حيا وأدرک نبوتی لاتبعنی (رواہ الدارمی بحوالہ مشکوة، باب الاعتصام، حدیث ۱۹۴) ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، اگر موسیٰ تمہارے لئے ظاہر ہوجائیں اور تم ان کی پیروی شروع کردو اور مجھے چھوڑ دو، تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے۔ اگر موسیٰ زندہ ہوتے اور میری نبوت پالیتے تو ان کے لئے بھی میری پیروی کے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔“ دنیوی فلاح کا ضامن بھی اسلام ہی ہے! پھر رسالت ِمحمدیہ پر ایمان صرف اُخروی نجات ہی کے لئے ضروری نہیں ، بلکہ دنیوی خوش حالی کا حصول بھی اس کے بغیر ممکن نہیں ۔ ا س کی سب سے بڑی دلیل مغرب اور یورپ کا ترقی یافتہ معاشرہ ہے۔ یہ ممالک سائنسی اور مادی ترقی میں بامِ عروج پر پہنچے ہوئے ہیں ، وہاں مال و دولت کی فراوانی اور تمدنی سہولتوں کی خوب ارزانی ہے، لیکن وہاں کا انسان حقیقی امن و سکون سے عاری ہے، روح کی سیرابی سے وہ