کتاب: محدث شمارہ 261 - صفحہ 10
”اگر تم ہمارے بندے پر نازل شدہ قرآن کے بارے میں شک میں مبتلا ہو، تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور اللہ کے سوا تمہارے جتنے حمایتی ہیں ، ان سب کو بلا لو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔“ دوسرے مقام پرفرمایا: ﴿اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرَاہ، قَلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِه وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِيْنَ﴾ (یونس:۳۸) ”کیا وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن وہ خود گھڑ لایا ہے؟ (اگر یہ سچ ہے) تو اس جیسی کوئی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن کو تم بلاسکتے ہو، بلا لو اگر تم سچے ہو۔“ اس کے ساتھ ساتھ قرآن نے یہ چیلنج بھی دیا: ﴿قُلْ لَّئِنْ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰ اَنْ يَّأتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْآنِ لاَيَأتُوْنِ بِمِثْلِهِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا﴾ (بنی اسرائیل:۸۸) ”کہہ دیجئے! اگر سارے انس و جن اس قرآن کی مثل بنا لانے کے لئے جمع ہوجائیں ، تب بھی وہ اس کی مثل نہیں لاسکتے، اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگاربن جائیں ۔“ ۱۴ صدیاں گزر جانے کے باوجود، قرآنِ کریم کا یہ چیلنج تشنہ ٴ جواب ہے، بڑے بڑے فصحاء و بلغا، ادباء وشعرا قرآنِ کریم کی نظیر بنانے سے قاصر رہے ، قاصر ہیں اور قاصر رہیں گے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ، انسانی فکرو کاوش کا اس میں دخل نہیں ، بلکہ یہ واقعی کلامِ الٰہی ہے جو جبریل امین علیہ السلام کے ذریعے سے پیغمبر اسلام کے قلب ِاطہر پر نازل ہوا اور اللہ نے آپکے سینے میں اسے محفوظ کردیا: ﴿ نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ، عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ، بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِيْنٍ﴾ ”اسے روح الامین لے کر نازل ہوا، آپ کے دل پر، تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہوجائیں ، واضح عربی زبان میں ۔“ (الشعراء:۱۹۳،۱۹۵) ﴿لاَ تُحَرِّکْ بِهِ لِسَانَکَ لَتَعْجَلَ بِهِ، اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَه، فَاِذَا قَرَأْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَه، ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَه﴾ (القیامہ : ۱۶ تا۱۹) ”آپ اس قرآن کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں ، اس کا (آپ کے سینے میں ) جمع کردینا اور اس کا پڑھ دینا، ہمارے ذمے ہے۔ پس جب ہم اسے پڑھ لیں ، تو آپ اس پڑھنے کی پیروی کریں ، پھر اس کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے۔“ جب اس قرآنِ مجید کا کلام الٰہی ہونا متحقق اور ثابت ہوگیا، تو اس کا ماننا بھی لازم اور ضروری ہوگیا۔ قرآنِ کریم کی حفاظت اور تشریح کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے! دوسری حقیقت قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی کہ اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ ہی نے لیا ہے۔ فرمایا ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذَّکْرَ وَاِنَّا لَهُ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر:۹) ”اس ذکر کے نازل کرنے والے ہم ہیں اور