کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 9
کرتے ہوئے عبدالقادر حسن صاحب نے لکھا تھا کہ صبح ۱۱ بجے تک یہ منصفانہ تھا، ۱۱ بجے کے بعد آزادانہ ہوگیا۔ ارشاد حقانی صاحب جنرل مشرف کے ریفرنڈم کے بارے میں لکھتے ہیں : ”اب جو ریفرنڈم ہونے جارہا ہے، یہ صبح سات بجے ہی سے آزادانہ ہوگا۔ نہیں ، مادر پدر آزاد ہوگا۔“ (جنگ: ۱۱/ اپریل) ایسا ریفرنڈم آخر کیونکر قابل اعتبار سمجھا جاسکتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے ریفرنڈم میں بڑی مشکل سے ۱۰ فیصد ووٹ پڑے تھے، مگر الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق ۶۵ فیصد ووٹرز نے حصہ لیا اور ان میں سے ۹۸ فیصد نے ضیاء الحق کی حمایت میں اپنی رائے دی۔ اب دیکھتے ہیں ۳۰/ اپریل کو کیا اعدادوشمار آتے ہیں ۔ مگرایک بات تو طے شدہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت اس بے مقصد سیاسی شغل سے لاتعلق ہی رہے گی۔ ایسے ریفرنڈم سے جنرل پرویز مشرف بزعم خویش اگلے پانچ سال کے لئے صدر تو منتخب ہوجائیں گے مگر وہ جس اخلاقی بلندی اور عوام کے اعتماد کا حصول چاہتے ہیں ، اس سے بدستور محروم ہی رہیں گے۔ پھر ایسی کارروائی کا فائدہ ہ ہی کیا ہے؟ (۸) جنرل مشرف اگر اخبارات کا بنظر غائر مطالعہ فرما رہے ہیں یا ا ن کے مقربین اگر اخبارات میں شائع ہونے والے اداریوں ، مضامین، کالموں اور خبروں سے انہیں ایماندارانہ طور پر باخبر رکھ رہے ہیں ، توانہیں یہ دیکھ کر یقینا پریشانی ہوگی کہ بہت سے دانشور اور اخبارات جو ان کی امریکہ سے تعاون اور جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی کی پالیسی کی اب تک حمایت کرتے آئے ہیں ، وہ بھی اب ریفرنڈم کے خلا ف اپنی آرا کا اظہار کررہے ہیں ۔ روزنامہ ’ڈان‘ جو مشرف حکومت کی لبرل پالیسی کا ہمیشہ حامی رہا ہے، ۷/اپریل کے اداریے میں واضع طور پر ریفرنڈم کو غیر آئینی قرار دے چکا ہے۔ ’دی فرائیڈے ٹائمز‘ جس کے ایڈیٹر نجم سیٹھی جنرل مشرف کے پرجوش حامیوں میں ہیں ، کے ۵تا۱۱/اپریل کے شمارے میں تین کالم ریفرنڈم کے خلاف شائع ہوئے ہیں ۔ اردو اخبارات کے کالم نگاروں میں نمایاں ترین مثال جناب ارشاد احمد حقانی کی ہے، جنہوں نے متعدد کالم ریفرنڈم کے خلاف لکھے ہیں ۔ ان کی مایوسی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک کالم کا عنوان ”حیران ہوں ، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں !“ رکھا ہے۔ اس کالم کا آغاز یوں فرماتے ہیں : ”آج قلم حیران ہے، کیا لکھے کیا نہ لکھے؟ فی الواقع پہلی دفعہ مجھ پر ’گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل‘کی کیفیت آرہی ہے۔ ریفرنڈم کے ڈرامے کا ہر سین پہلے سین سے زیادہ ناقابل یقین، دل شکن، اور حیران کن ثابت ہورہا ہے۔“ (جنگ:۱۱/اپریل) اسی کالم میں مزید لکھتے ہیں : ”جن لوگوں نے بشمول میرے صدر مشرف سے یہ توقع وابستہ کر رکھی تھی کہ وہ ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے پر بہتر حاکم ثابت ہوں گے اور ان کے اقدامات اور فیصلوں سے صحت مند روایات قائم ہوں گی، تازہ واقعات سے ان کی مایوسی ناقابل فہم نہیں ہونی چاہئے۔ توقع یہ تھی جنرل مشرف حقیقی اور مثبت معنوں میں اپنے پیشرو فوجی حکمرانوں سے بہتر روایات قائم کریں گے لیکن افسوس کہ بعض