کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 8
(v) جہاں تک ’فرقہ واریت اور انتہا پسندی ‘ کا تعلق ہے ، بلاشبہ فرقہ واریت اور انتہا پسندی درست قرار نہیں دی جاسکتی مگر جس انداز میں امریکیوں کے دباوٴ کے زیر اثر بعض اسلامی تنظیموں اور دینی اداروں پر’کریک ڈاوٴن‘ کیا گیا، اسے ایک اسلامی مملکت میں نرم ترین الفاظ میں ا فسوس ناک قرار دیا جائے گا۔ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ انتہا پسندی صرف دین پسندوں میں ہے حالانکہ لا دینیت پسندوں میں بھی انتہا پسندی کم نہیں ہے ، مگر اس طرف توجہ نہیں دی جاتی۔حکومت کی جارحانہ پالیسی کی وجہ سے محض فرقہ وارانہ تنظیمیں ہی نہیں ، وہ دینی جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں بھی سخت دہشت زدگی اور اعصابی دباوٴ کا شکار ہیں جن کا فرقہ واریت سے دور دور کاتعلق بھی نہیں ہے۔ ان بے ضرر تنظیموں میں بھی شدید گھٹن اور اضطراب محسوس کیا جارہا ہے۔ دینی اداروں کو سخت ضابطوں میں جکڑنے کی پالیسی اپنائی جاتی ہے مگر این جی اوز کو کھلی چھٹی دی جاتی ہے۔نئی مساجد کے قیام پر پابندی عائد گی گئی ہے، مگر اس ملک میں فحاشی پھیلانے والے کلب اور طوائفوں کے اڈّے بغیر کسی خوف کے اپنا کام کر رہے ہیں ۔
(۷) دینی، سیاسی جماعتیں اور ذرائع ابلاغ اگر کسی قوم کی سوچ کے آئینہ دار کہلانے کے مستحق ہیں تو یہ بات اب نہایت واضح طور پر سامنے آگئی ہے کہ پاکستان کے عوام مذکورہ ریفرنڈم کے حق میں نہیں ہیں ۔ ملک کی اعتدال پسند، دائیں بازو اور بائیں بازو کی تمام قابل ذکر جماعتوں مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) ، جماعت اسلامی،اے این پی، جمہوری وطن پارٹی، ایم کیو ایم ، پونم ، جمعیت علمائے اسلام ، جمعیت علمائے پاکستان ، مرکزی جمعیت اہل حدیث کے علاوہ اے آر ڈی اور متحدہ مجلس عمل نے بھی اس ریفرنڈم کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ جن سیاسی جماعتوں نے ریفرنڈم کی حمایت کا اعلان کیا ہے ان کی عوام میں پذیرائی نہ ہونے کے برابر ہے۔مثلاً تحریک ِانصاف ، ملت پارٹی اور پروفیسر طاہر القادری کی عوامی تحریک۔ پاکستان مسلم لیگ کا ایک حصہ (ہم خیال گروپ) قائد اعظم کے نام سے ،اگرچہ اب بھی عوام میں کسی حد تک مقبولیت رکھتا ہے ، مگر اسے شروع ہی حکومتی پارٹی کہا جارہا ہے۔جبکہ عوام کی نمائندہ جماعتیں اس قدر کثیر تعداد میں ریفرنڈم کی مخالفت کر رہی ہیں ، تو ریفرنڈم ایک مذاق بن کر رہ جائے گا !!
(۸) ریفرنڈم جس انداز میں کرانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں اس کے بعد اب کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ر ہتی کہ یہ محض تکلف ہی ہو گا، اس کو ریفرنڈم کا نام دینا مشکل ہو گا۔ نئے اعلان کے مطابق پورے پاکستان کو ووٹرز کے لیے حلقہ قرار دیاگیا ہے۔قواعد میں اس طرحکی نرمی پیدا کرنے کا صاف مطلب ہے کہ حکومت دل ہی دل میں خدشات کا شکار ہے۔ ایک شخص اگر دس جگہوں پر اپناووٹ ڈالنا چاہے گا، تو اس کو چیک کرنا مشکل ہوگا۔ پھر جب مخالفت میں کوئی امیدوار ہی نہیں ہوگا، کسی کو شناختی کارڈ پرسوراخ لگانے یا چیک کرانے کی ضرورت ہی کیوں پڑے گی؟ جو شخص یہ کہے گا کہ میں ۱۸ سال کا ہوں ، وہ بلا رکاوٹ ووٹ کا حق استعمال کرسکے گا۔ پھر ریفرنڈم ڈیوٹی پر موجود سرکاری اہل کار بھی مخالف امیدوار کی عدم موجودگی میں اپنی صوابدید کا بھرپور استعمال کرسکیں گے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے ریفرنڈم پر تبصرہ