کتاب: محدث شمارہ 260 - صفحہ 70
ہے۔“ (ندائے خلافت: جلد۱۱، شمارہ ۱۱)
ان کے جنازہ کے موقع پر علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند جناب حافظ ابتسام الٰہی نے کہا:
”پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب کلام اللہ کے صحیح عالم تھے، وہ آج بھی زندہ ہیں ۔ ان شہادتوں سے کلام اللہ کو پھیلانے کا سفر رک نہیں سکتا۔“
جماعت الدعوة کے مرکزی رہنما جناب حافظ عبدالسلام بھٹوی نے کہا:
”مرحوم عطاء الرحمن ثاقب نے اپنی زندگی قرآن کی اشاعت کے لئے وقف کررکھی تھی اور وہ تمام حلقوں کی غیر متنازعہ شخصیت تھی۔“
ملت پارٹی کے سربراہ جناب فاروق احمد لغاری نے ان کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان جیسے عالم کا ہم سے بچھڑ جانا ایک بڑا سانحہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے۔
۵/اپریل ۲۰۰۲ء کو اسلامک فاؤنڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام ہمدر د ہال میں پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب کی یاد میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔ جس کی صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان کررہے تھے۔ اس میں حافظ عبدالسلام بھٹوی، حافظ ابتسام الٰہی ظہیر، لیاقت بلوچ، میاں محمد جمیل، عبدالغفار روپڑی، پروفیسر مزمل احسن شیخ، رانا شفیق پسروری، قاضی عبدالقدیر خاموش، انجینئر سلیم اللہ ، ڈاکٹراجمل قادری، مولانا زبیر احمد ظہیر اور کئی دیگر زعما نے خطاب کرتے ہوئے ان کی خدمات کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔
حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
”کفار کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ قرآن کی تعلیمات ہیں ۔ پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب کی قرآن کی تعلیم کو عام کرنے کے لئے خدمات انتہائی عظیم ہیں ۔ انہوں نے ایسے دور میں جب شخصیت پرستی اور نعرے بازی کا دور عام ہوچکا ہے۔ انتہائی خاموشی سے قرآن سمجھنے اور سمجھانے کی تحریک برپا کررکھی تھی۔ جس کے نتیجے میں چراغ سے چراغ جلتا تھا اور یہ روشنی پھیلتی رہی ۔“
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جناب ڈاکٹر ایس ایم زمان نے ان کی خدمات کوسراہا اور کہا
” پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب، حنفی، شافعی ، سلفی، سنی سے قطع نظر صرف اور صرف معلم قرآن تھے۔ مجھے انکے ساتھ تقریباً دو سال گزارنے کا موقع ملا۔ میں نے دیکھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں جو مسئلہ بھی پیش ہوا، انہوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ انکی شہادت کا غم پوری امت ِمسلمہ کا غم ہے“
مرحوم کے تلامذہ
مرحوم نے سات سال قبل اپنی فہم قرآن تحریک کا آغاز کیا اور اب تک لاہورمیں بیسیوں مراکز کے علاوہ بیرونی ممالک میں بھی فہم قرآن کورسز کا آغاز کیا جاچکا تھا جو اب تک جاری ہے اور اس سات سال کے عرصہ کے دوران آپ کے شاگردوں کی تعداد ۹ ہزار سے تجاوز کرچکی تھی جنہیں آپ نے قرآنی